22 سے 24 اپریل تک ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے مشترکہ اعلامیے میں بہت سارے امور پر اتفاق رائے کیا گیا جن میں سب سے اہم بات دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ، بارڈر مارکیٹس کے قیام اور نئے سرحدی راستے راستے کھولنے جیسے فیصلے شامل تھے۔
مزید پڑھیں
پاک ایران مشترکہ اعلامیہ کے مطابق آئندہ 5 سالوں میں پاک ایران تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا، لیکن امریکی دفتر خارجہ نے ایک بار پھر سے خبردار کیا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت سے پاکستان پر تجارتی پابندیوں کا اطلاق ہو سکتا ہے، اس پس منطر میں پاکستان کیا ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیش رفت کر سکتا ہے؟
پاکستان کو بھارت، چین، جرمنی اور جاپان کا ماڈل اپنانا چاہیے
وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے کہا کہ دنیا میں بہت سارے ممالک دوطرفہ تجارت کو بڑھاتے ہیں، ایران پر مکمل پابندیاں نہیں بلکہ یہ پابندیاں مخصوص نوعیت کی ہیں، چین، جاپان، بھارت اور جرمنی کی ایران میں بہت سرمایہ کاری ہے اور یہ ممالک ایران کے ساتھ تجارت بھی کرتے ہیں۔
’پاکستان کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت کے لیے کن شعبوں پر امریکی پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہے اور کن پر نہیں، یہی چیز مذکورہ ممالک کر رہے ہیں، ہم بھی ان ممالک کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں اور ان چینلز اور شعبوں میں تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں جن پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘
سید محمد علی کے مطابق روس، چین، شمالی کوریا اور ایران کو تنہا کرنا امریکا کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا ایک بنیادی ستون ہے، امریکہ اپنے تمام حلیف اور زیراثر ممالک سے ان 4 ملکوں کے ساتھ تجارت نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے، مثال کے طور پر برطانیہ نے برقی توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ری ایکٹر کی تنصیب کے لیے ساری دنیا سے بولیاں منگوائیں جن میں چین سے بھی بولیاں شامل تھیں، جو یقیناً باقی ملکوں کے مقابلے میں کم قیمت تھیں۔
’۔۔۔لیکن امریکا نے برطانیہ پر دباؤ ڈالا کہ چین سے ایٹمی ری ایکٹر نہ خریدے جائیں، اسی طرح سے چین اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم پاک چین تجارت سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن جب چین نے بھارت کے ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں اور 5 جی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی تو امریکی دباؤ کے نتیجے میں بھارت نے چین کو سرمایہ کاری سے منع کردیا۔‘
سید محمد علی کے مطابق اسی طرح سے ترکی نے روس سے جب ایس 400 میزائل خریدنے کی بات کی تو امریکا نے اس کو ایسا کرنے سے روکا، پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ جرمنی، جاپان، چین اور بھارت کی طرح ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے وہ شعبے تلاش کرے جن پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان کس لحاظ سے اہم تھا؟
اس ضمن میں سید محمد علی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے اطلاعات کے تبادلے اور مشترکہ ایکشن کے بارے میں بات کی تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں، اسی طرح سے بارڈر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
’۔۔۔پھر ایرانی صدر نے کراچی کے تاجروں سے ملاقات کی اور پاکستان جو روایتی طور پر مغربی مارکیٹس کی طرف دیکھتا ہے اس کے لیے ایران کے ساتھ تجارت کے کئی مواقع ہیں خاص طور پر چاول، ٹیکسٹائل کے شعبے میں پاکستان اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے۔‘
8 سال بعد کسی ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بڑا بریک تھرو ہے
پاکستان میں ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے بیورو چیف افضل رضا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 8 سال کے بعد کسی ایرانی صدر کا دورہ پاکستان ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ ’ان کے دورے کے موقع پر اسرائیل نے ایران پر جوابی حملہ کرنے کا دعویٰ کیا، ایرانی صدر نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ نہ کر کے عالمی سطح پر یہ پیغام دیا گیا کہ اسرائیل کی اتنی جرات نہیں۔‘
افضل رضا کے مطابق پاکستان اور ایران نے فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر پیش رفت کو تیز کرنے پر اتفاق کیا جو بہت خوش آئند ہے، اس سے قبل ڈھکے چھپے انداز میں باتیں ہوتی تھیں لیکن اب کھل کر سامنے آ گیا کہ دونوں ملک فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر پیش رفت کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر باور کرایا گیا کہ دونوں ملک کشمیری اور فلسطینی مسائل سمیت عالمی مسائل پر ہم خیال ہیں۔
’دونوں ملکوں نے اسرائیل کی مذمت کی اور افغانستان کے حوالے سے بھی یکساں موقف اپنایا جو دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔، اس کے علاوہ 21 نکاتی مشترکہ اعلامیہ بھی ایک بہت بڑی پیش رفت ہے، بلاشبہ ایرانی صدر کا لاہور، اسلام آباد، اور کراچی میں پرتپاک استقبال ہوا جس کے اثرات جلد نظر آئیں گے۔‘
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مالی مشکلات کے باعث زیر التواء ہے
سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے وی نیوز کو بتایا کہ امریکا نے پاکستان کو گول مول، مبہم اور غیر واضح انداز میں ایران کے ساتھ تجارتی روبط بڑھانے کے بارے میں خبردار کیا ہے لیکن پاکستان بطور ایک خود مختار ریاست دوسروں ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے میں آزاد ہے۔
علی سرور نقوی کے مطابق پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور بات کافی آگے بڑھ چکی ہے لیکن اس منصوبے پر کام کی سست رفتاری کی وجہ امریکی پابندیاں نہیں بلکہ پاکستان کے مالی حالات ہیں، جس کے باعث ہمارے پاس اس منصوبے کی تکمیل کے لیے مطلوبہ فنڈز میسر نہیں۔
’دونوں ملک اگر مل کر کوشش کریں تو باہمی تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک لیجانے کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے، فی الوقت دونوں ملکوں کے مابین غیررسمی تجارت ہو رہی ہے، جسے کو کسی ضابطے میں لاکر بہت بہتری لائی جاسکتی ہے۔‘