سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ دے دیا۔ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ انہیں ان کا حق مل گیا، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ کیس سنی اتحاد کونسل کا تھا اور نشستیں پی ٹی آئی کو مانگے بغیر مل گئیں۔ فیصلہ الیکشن کے انعقاد کا ہو یا مخصوص نشستوں کی بحالی کا سیاسی استحکام کی ’امیدیں‘ کیوں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں؟
ہم سیاسی استحکام کی تلاش میں نئے سے نیا سیاسی بحران پیدا کرتے آئے ہیں۔ 4 دن جمہوریت چلائی، پھر مارشال لا لگا دیا۔ مارشل سے تنگ آئے تو جمہوری حکومتیں لے آئے۔ پھر حکومتیں اور وزیراعظم بدلنا شروع کر دیے۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں کوئی جمہوری حکومت مدت پوری نہ کر پائی۔ کبھی امن و امان اور دہشتگردی کے مسئلوں میں الجھے رہے تو کبھی سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالتے رہے اور پھر کہتے ہیں معاشی اور سیاسی استحکام کیوں نہیں آتا؟
فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ملک کی دو بڑی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے ذریعے یہ طے کیا کہ وہ کسی طاقت کے کہنے پر ایک دوسرے کی حکومت گرانے سے باز رہیں گے، تاکہ ملک میں سیاسی جوڑ توڑ اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکے اور استحکام کی طرف بڑھا جائے۔
مشرف دور کی پیدا کردہ دہشتگردی کی لہر سے نکلنے کی کوشش ہورہی تھی، ملک طویل آمرانہ دور سے نکل کر جمہوری دور میں داخل ہورہا تھا اور امید کی جارہی تھی کہ سیاسی استحکام پیدا کرکے ملک میں عوام کی منتخب کردہ حکومت کو ایک موقع فراہم کیا جائے۔ مگر ہمیں سیاسی استحکام شاید پسند ہی نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تو جمہوری حکومت کو غیبی طاقتیں ہچکولے دینے لگیں۔ ’عبجب کرپشن کی غضب کہانی‘ کے تخلیق کار سرگرم ہوگئے۔ عدالتوں کے ذریعے جمہوری حکومت کو عدم استحکام کا شکار کردیا، اور پھر عدلیہ نے ہی پیپلزپارٹٰی کے وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کے جرم میں نااہل کردیا۔
2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت قائم ہوئی، پیپلز پارٹی نے شکست قبول کرتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا، مگر ایک بار پھر حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے عمران خان کا انتخاب کیا گیا۔ انہیں دھرنوں کی ذمہ داری دی گئی اور وزیراعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دلوا کر اگلے الیکشن میں انتہائی تگ و دو کے بعد ’ایک صفحے‘ کی حکومت وجود میں لائی گئی۔ ’مثبت رپورٹنگ‘ کے باوجود ’ایک صفحہ‘ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور محض ساڑھے تین سال بعد ہی وزیراعظم کو تاریخی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے نکال باہر کر دیا گیا۔ کیا اس طرح سیاسی اور معاشی استحکام لایا جاتا ہے؟
کہاں کا استحکام؟ عمران خان سڑکوں پر نکل آئے، تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنا شروع کردیا۔ معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گئی تو قصوروار ’ایک صفحے‘ کی حکومت کو ٹھہرایا گیا۔ ایسے میں اپنے ہی دور حکومت میں ہر فیصلے کی ذمہ داری لینے والے وزیراعظم عمران خان کہنے لگے کہ تمام فیصلے جنرل قمر باجوہ کرتے تھے۔
چونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت بن چکی تھی اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے خواب دیکھے جارہے تھے مگر 16 ماہ میں معاشی استحکام تو نہ آسکا البتہ سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ضرور ہوا۔ اب ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے ساتھ دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت بنائی گئی ہے تاکہ ملک میں استحکام لایا جا سکے۔
الیکشن سے قبل اسی سیاسی استحکام کی غرض سے ہی پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والے سیاستدانوں کو استحکام پارٹی بھی لانچ کرنا پڑی۔ نہ وہ پارٹی چلی اور نہ ہی استحکام ملا۔ ادھر بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ’عزم استحکام آپریشن‘ شروع کرنے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔ عمران خان آپریشن کے حق میں ہیں اور نہ ہی ان کے بقول ’جعلی‘ حکومت ملک میں کسی قسم کا استحکام لانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
مقتدرہ اور نام نہاد جمہوری حکومت مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر دلاسے دے رہے ہیں کہ بہت جلد معاشی اور سیاسی استحکام آنے والا ہے۔ مگر عوام کی سب امیدیں ختم ہوچکی ہیں کیونکہ ہر مرتبہ صرف انہیں قربانی دینا پڑتی ہے جبکہ مقتدرہ، سیاستدان اور ان سے ہمیشہ فائدہ اٹھانے والے بااثر کاروباری طبقات اپنی عیاشیاں کسی صورت کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شاید استحکام کی تمام کوششیں انہی کے لیے کی جارہی ہیں؟