سابق وزیراعظم پاکستان و عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیئر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کے تحت آرمی چیف خود سے تو ایکسٹینشن نہیں لے سکتے ہاں لیکن اگر حکومت دینا چاہے تو دے سکتی ہے مگر یہ عمل ہمیشہ ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ چاہے کسی بھی ادارے میں ایکسٹینشن ہو۔
’جنرل باجوہ کو جب ایکسٹینشن ملی تو جیل میں تھا‘
وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی پہلی ایکسٹٰینشن ہوئی تھی تو وہ جیل میں تھے اور انہوں نے جیل سے نواز شریف کو پیغام بھیجا تھا کہ وزیراعظم عمران خان آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے چکے ہیں اور فوج نے قبول کرلی ہے اس لیے فوج کو شرمندہ نہ کریں تاہم قانون میں ترمیم مت کریں۔
شاہد خاقان عباسی کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ قانون میں ترمیم ایسی ہوکہ وہ اسے غیر معمولی عمل ہی رکھے لیکن ہم نے اسے معمول کا حصہ بنا لیا۔
یہ بھی پڑھیں جنرل باجوہ کی جانب سے مارشل لا کی دھمکی دینے کی بات درست نہیں، شاہد خاقان عباسی
اس سوال پر کہ کیا موجودہ آرمی چیف ایکسٹینشن لیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت وہ خود سے تو نہیں لے سکتے اگر حکومت دینا چاہے تو دے سکتی ہے لیکن یہ عمل ہمیشہ ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ چاہے کسی بھی ادارے میں ایکسٹینشن ہو۔
انہوں نے کہاکہ ہمیشہ ان معاملات میں آئین بنانے والوں کی منشا کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ یہ مدت کیوں 3 سال رکھی گئی تھی؟ میرے والد خاقان عباسی اس وقت ایئر فورس میں سینیئر آفیسر تھے ان کو اس معاملے میں شامل کیا گیا تھا۔
’ان کو امریکا بھیجا گیا تھا کہ آپ جاکر دیکھیں کہ ان کا فوج کا نظام کیسا ہے، تو اس کے پیچھے ایک پوری سوچ ہے‘۔
نواز شریف خاموش کیوں ہیں؟
جب عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیئر شاہد خاقان عباسی سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ نواز شریف فروری الیکشن کے بعد خاموش سے ہو گئے ہیں اور زیادہ متحرک نہیں رہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف اس الیکشن کے نتائج کی حقیقت جانتے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں جہاں الیکشن چوری ہوتے ہیں وہاں سیاسی استحکام نہیں آتا، شاہد خاقان عباسی
ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سال ہونے والے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو سابق وزیراعظم نے کہاکہ میں اس پر نہیں کچھ کہتا لیکن نواز شریف جانتے ہیں، میں بھی جانتا ہوں۔
’یہ بہت بڑا جھٹکا ہے ان (نواز شریف) کی جماعت کے لیے کہ وہ جماعت جو 60 سے 80 سیٹوں سے شروع کرتی تھی بہت نیچے چلی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دو کی بات سے ہٹ گئے ہیں اور اقتدار کو عزت دی جس کے بعد لوگ ان کی حمایت سے ہٹ گئے‘۔
’تحریک عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن کا حامی تھا‘
شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے فوری بعد الیکشن کے حامی تھے مگرجماعت نے فیصلہ کیا اور کارکردگی کا بیانیہ خراب ہوگیا، کیونکہ 16 ماہ میں کام نہیں ہوسکا اور آئین کے حق میں جانے کا بیانیہ بھی عمران خان کے پاس چلا گیا۔
خواجہ آصف کی جانب سے اس بیان پر کہ شاہد خاقان جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوسری ایکسٹینشن کا پیغام لے کر لندن نواز شریف کے پاس گئے تھے، سابق وزیراعظم نے ہنستے ہوئے کہاکہ ’میں تو پہلی ایکسٹینشن کا پیغام لے کر بھی نہیں گیا تھا‘۔
’8 الیکشن جیتے اور 2 ہارے، مگر تب مجھے ہروایا گیا‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے حلقے میں اسکولز اور اسپتالوں کا نظام مکمل کیا اور سڑکیں بنوائیں مگر حکومت کے پیسے ضائع نہیں کروائے کہ کسی کو سیاسی رشوت دے کر چھوٹی سی گلی بنوا دی جائے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وہ 8 الیکشن جیتے اور 2 ہارے ہیں مگر دونوں دفعہ ان کو ہروایا گیا۔
نواز شریف سے بے وفائی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں وفاداری اصولوں کے ساتھ ہوتی ہے شخصیت سے نہیں ہوتی۔ ’میرا میاں صاحب سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ان سے 35 سال کا تعلق ہے اورنواز شریف کو حق ہے کہ وہ میرے بارے میں جو چاہے بات کریں، لیکن یہ حق صرف ان کو ہی ہے‘۔
سابق وزیراعظم نے کہاکہ نواز شریف کی مہربانی ہے کہ انہوں نے 186 ایم این ایز میں سے مجھے وزیراعظم کے لیے چنا مگر میں نے انکار کردیا تھا، اور اس بات کی ساری مسلم لیگ گواہ ہے، 28 لوگ وہاں موجود تھے۔ میرا اصولی اختلاف تھا، بند کمرے کی بات ہے میں نہیں کروں گا۔
’بلوچستان کے معاملے پر ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا‘
بلوچستان کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس ملک کے شہریوں کے مسائل سننے ہوں گے۔ لوگوں کو سیاست میں حصہ دینا ہوگا، ان کی لسٹیں مت بنائیں کہ کون ایم این اے بنے گا کون ایم پی اے۔ اس سے ہی نفرت اور نفاق پیدا ہوتا ہے۔
ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہاکہ اختر مینگل نے استعفیٰ اسی لیے دیا ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے۔