پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان اسمبلی شیخ وقاص، شعیب شاہین، زین قریشی اور شیر افضل مروت نے اپنے وکلا علی بخاری اور عادل عزیز قاضی کے ذریعے انسداد دہشتگردی کی جانب سے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
بدھ کو جمع کروائی گئی درخواست میں کہا گیا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ عدالت نے ایف آئی آر میں کردار کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ سنایا اور ٹرائل عدالت کے فیصلے میں جسمانی ریمانڈ منظوری کی وجوہات تحریر نہیں کی گئیں۔ درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ انسدادِ دہشتگردی کا فیصلہ اصول قانون، سچ و انصاف کے منافی ہے۔
مزید پڑھیں: قانون شکنی کا الزام: انسداد دہشتگردی عدالت نے پی ٹی آئی کے 7 قائدین کا جسمانی ریمانڈ منظور
واضح رہے کہ 10 ستمبر کو انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے فیصلہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنماؤں شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چٹھہ و دیگر کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
سناعت کے دوران پراسیکیوٹر راجہ نوید نے شعیب شاہین کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور دعویٰ کیا کہ پولیس کو ملزمان کے پاس سے ‘پولیس کٹس’ برآمد کرنا ہوں گی۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کارکنوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آلات اور وردی کا استعمال کرتے ہوئے پولیس پر حملہ کیا‘۔
دریں اثنا جج ذوالقرنین نے پی ٹی آئی کو دیے گئے عوامی اجتماع کا ٹائم فریم بھی طلب کیا جس پر راجہ نوید نے جواب دیا کہ انہیں شام 4 بجے سے شام 7 بجے کے درمیان جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
پراسیکیوٹر نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ’پبلک آرڈر‘ کے بارے میں ایک نیا قانون نافذ کیا گیا ہے. وکیل کے مطابق فریقین کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی قیادت پر کارکنوں اور حامیوں کو اکسانے کا بھی الزام عائد کیا۔
دوسری جانب وکیل دفاع ریاض علی نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل اس موقع پر موجود نہیں تھے۔
انہوں نے کمرہ عدالت میں شعیب شاہین کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی چلائیں، جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک وکیل کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ شعیب شاہین کو ان کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا، جہاں قانون کے مطابق انہیں تحفظ حاصل ہے۔
پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں پی ٹی آئی رہنما کے کردار سے متعلق جج ذوالقرنین کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ ان پر پارٹی کارکنوں کو اکسانے اور ہدایت دینے کا الزام ہے۔
دلائل سننے کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔