سیاحت کا عالمی دن اس کی اہمیت کو فروغ دینے کے لیے وقف ہے، یہ اقوام کے درمیان امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ 1980 میں اقوام متحدہ کی عالمی سیاحتی تنظیم (یو این ڈبلیو ٹی او) کے قیام کے بعد پوری دنیا میں سیاحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے تاکہ اقوام میں سیاحت کا معیشت پر مثبت اثرات کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے، سیاحت کے ذریعے زمین پر موجود ہر 10 میں سے ایک شخص کو روزگار ملتا ہے، اور مزید کروڑوں لوگوں کو بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس سال سیاحت کے عالمی دن کا پیغام ’سیاحت اور امن‘ ہے۔
یہ بھی پڑھیں سعودی عرب میں سیاحت کے شعبہ نے نئے ریکارڈ قائم کردیے
سیاحت لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
سیاحت کے اس عالمی دن پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ سیاحت لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، ہم سیاحت اور امن کے درمیان گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔
’پائیدار سیاحت کمیونٹیز کو تبدیل کرسکتی ہے، ملازمتیں پیدا کرسکتی ہے، شمولیت کو فروغ دے سکتی ہے اور مقامی معیشتوں کو مضبوط کرسکتی ہے‘۔
سفر اور ثقافتی تبادلے کی حوصلہ افزائی کرکے سیاحت نہ صرف مختلف ثقافتوں کے بارے میں ہماری سمجھ کو بہتر بناتی ہے بلکہ رواداری اور تعاون کو فروغ دے کر عالمی امن میں بھی کردار اد کرتی ہے۔
سیاحت دوسرے سے ملنے، مختلف ثقافتوں کے بارے میں سیکھنے، غیر ملکی زبانیں سننے، غیر ملکی ذائقوں کو چکھنے، دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات اور رواداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور سرحدوں کے پار تعلقات کو فروغ دے سکتی ہے۔
آزاد کشمیر کے ایک سیاح علی رضوان خواجہ کی زندگی کیسے بدلی؟
علی رضوان خواجہ کو گھومنے کا شوق تھا، وہ نہ صرف پاکستان بھر میں گھومے ہیں بلکہ انہوں نے انڈونیشیا میں بالی کا سفر بھی کیا ہے اور اسی سفر نے ان کی زندگی میں تبدیلی لائی ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بنیادی طور پر میں ایک ٹریولر ہوںِ، میں نے پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں کو دیکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے کچھ ممالک کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
’انڈدونیشیا میں موجود جزیرے بالی کو میں نے سمجھا‘
انہوں نے کہاکہ میرا انڈونیشیا میں کچھ ٹائم گزرا، وہاں پر موجود جزیرے بالی کو میں نے سمجھا اور وہاں سے تجربہ ملا، پھر پاکستان واپس آکر نا صرف میں نے بلکہ میرے خاندان کے تقریباً زیادہ تر افراد نے سیاحت کو اپنا پیشہ بنایا، اور اب سیاحت ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم پاکستان کے شہروں سے بہت سارے لوگوں کو گلگت بلتستان اور کشمیر سیر کے لیے لے جاتے ہیں اور وہاں کے کلچر سے روشناس کرواتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں مظفرآباد آزاد کشمیر میں 19ویں صدی کی بنی ٹنل کی خاص بات کیا ہے؟
علی رضوان خواجہ نے کہاکہ مجھے باہر جاکر جو چیزیں سمجھ میں آئی ہیں وہ یہ ہے کہ وہاں نہ صرف لوگوں نے اس انڈسٹری کو اپنے روزگار کا حصہ بنایا ہے بلکہ اسی انڈسٹری کے ذریعے وہ اپنے کلچر کو پوری دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہے ہیں اور اب ہم بھی پاکستان میں یہی کام کررہے ہیں۔
’پاکستان میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو بین الاقوامی سیاح دیکھنا چاہتا ہے‘
انہوں نے کہاکہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاحت کے شعبے کو روزگار کے طور پر اپنائے کیونکہ اس ملک میں وہ تمام نعمتیں موجود ہیں جس کو ایک بین الاقوامی سیاح دیکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کام کے لیے صابر ہونا اور جنون بہت ضروری ہے۔ ’ہم نے پچھلے 5 سے 6 سالوں کے دوران ڈومیسٹک لیول پر ٹور سیٹ کیے، ہم نہ صرف لوگوں کو اس علاقے کی خوبصورتی دکھاتے ہیں بلکہ یہاں کے کلچر کو بھی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، بلا شبہ پاکستان میں سیاحت واحد ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دے کر گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں سڑکیں اتنی بہتر نہیں ہیں، خصوصاً آزاد کشمیر کا انفراسٹرکچر اتنا مضبوط نہیں، لیکن اس پر کام ضرور ہورہا ہے۔
’آنے والے 5 سے 6 سالوں میں سیاحت کو فروغ ملے گا‘
علی رضوان خواجہ نے امید ظاہر کی کہ آنے والے 5 سے 6 سالوں میں پاکستان میں سیاحت کو مزید فروغ ملے گا، اور پورے ملک سمیت شمالی علاقوں کا کلچر پوری دنیا کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے کہاکہ یہاں پر بہت سے مقدس مقامات موجود ہیں لیکن وہ چھپے ہوئے ہیں اور ابھی تک سیاحوں کی نظروں میں نہیں آئے۔
یہ بھی پڑھیں گلگت بلتستان میں سیاحت جوبن پر، سفر کے لیے کونسی حفاظتی تدابیر اختیار کریں؟
انہوں نے کہاکہ امید ہے اگلے 5 سالوں میں یہ چیزیں بہت بہتر ہو جائیں گی اور یہاں کے لوگوں کو نہ صرف سیاحت کے ذریعے ایک اچھا روزگار میسر آئے گا بلکہ اس خطے کا کلچر بھی پوری دنیا میں روشناس ہوگا۔