معروف صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان نے گرفتاری کے بعد پہلا بیان دیا ہے کہ انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں مارے جانے والوں پر اسٹوری کر رہے تھے۔
مطیع اللہ جان نے عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سگریٹ تک نہیں پیتے لیکن گرفتار کر کے ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے لیکن وہ ڈرتے نہیں ہیں اور اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح اداروں کی ساکھ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مطیع اللہ جان پر مقدمہ درج، کونسی دفعات لگائی گئیں؟
قبل ازیں مطیع اللہ جان کو گزشتہ شب پمز اسپتال کی پارکنگ سے اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب کہ وہ ساتھی صحافی کے ہمراہ پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
صحافی مطلع اللہ جان کے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ان کے صاحبزادے عبدالرزاق کی جانب سے کی والی ٹوئٹ کے مندرجات کے مطابق مطیع اللہ جان کو ان کے ساتھ صحافی ثاقب بشیر کے ہمراہ شب 11 بجے پمز اسپتال کی پارکنگ سے اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
ٹوئٹ کے مطابق ثاقب بشیر کو 5 منٹ بعد چھوڑ دیا گیا، تاہم مطیع اللہ جان کو ایک اغوا کار ایک بغیر نمبر پلیٹ گاڑی میں اپنے ہمراہ لے گئے۔
ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان کو اسلام آباد میں احتجاج کی جرأت مندانہ کوریج کے بعد اغوا کیا گیا، ٹوئٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف مطیع اللہ جان کے ٹھکانے سے متعلق ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا جائے بلکہ انہیں فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) November 28, 2024
لاپتا ہونے اور پھر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ظاہر کیے جانے والے معروف صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کے خلاف اسلام آباد میں درج کیے جانے والی ایف آئی آر کے مندرجات سامنے آگئے ہیں۔
پولیس نے مطیع اللہ جان کے خلاف چیکنگ پر مامور پولیس پارٹی پر گاڑی چڑھانے، حالت نشہ میں گاڑی ڈرائیو کرنے، گاڑی سے نشہ آور مواد آئس برآمد ہونے اور پولیس اہلکاروں پر بندوق تانے کے الزام میں مختلف دفعات کے تحت دہشتگردی کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ مطیع اللہ جان جولائی 2020 میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی اغوا ہوئے تھے، تاہم بعد ازاں بحفاظت گھر پہنچ گئے تھے۔