عدت میں شادی عمران خان کا ذاتی معاملہ؟

جمعہ 14 اپریل 2023
author image

بلال غوری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

راندہ درگاہ مفتی سعید کبھی عمران خان کے حلیف سخن ساز ہوا کرتے تھے۔ انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ عمران خان کی ریحام خان کے ساتھ شادی ہو یا پھر بشری وٹو کے ساتھ رشتہ ازدواج، دونوں مواقع پر نکاح خواں کے فرائض مفتی سعید خان نے ہی سرانجام دیے۔

دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ ریحام خان اور بشری وٹو دونوں کے ساتھ 2 مرتبہ نکاح کروایا گیا۔ مفتی سعید خان کو ایک ہی جوڑے کا دوسری بار نکاح پڑھانے کا خاصا تجربہ ہے۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ساس اور سسر میجر جنرل (ر) اعجاز امجد کا بھی دوسری مرتبہ نکاح کروایا تھا۔

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے سسر میجر جنرل (ر) اعجاز امجد کی میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں ترقی اس لیے نہیں ہوسکی تھی کہ ان کے عقائد سے متعلق شکوک و شہبات کا اظہار کیا جاتا رہا۔

میجر جنرل اعجاز امجد کے بھائی اور ان کی اہلیہ احمدی تھے مگر ان کا اصرار تھا کہ وہ احمدی نہیں ہیں۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں جب جنرل عبدالوحید کاکڑ آرمی چیف تھے تو 1995 میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور بریگیڈیئر مستنصر بااللہ نے دیگر فوجی افسران سے ملکر حکومت کا تختہ اُلٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مفتی سعید بھی اس ناکام فوجی بغاوت میں ان کے ساتھ شامل تھے۔

جب فوجی بغاوت ناکام ہوگئی اور سب لوگ گرفتار ہوگئے تو مفتی سعید وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ ٹرائل کے دوران اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مفتی سعید نے کہا: ’میجر جنرل اعجاز امجد لیفٹیننٹ جنرل غلام ملک کے حوالے سے میرے پاس آئے تھے۔ میجر جنرل اعجاز امجد کا کیس پروموشن کے لیے پیش ہونے والا تھا۔ میجر جنرل اعجاز امجد کے قادیانی ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیت کے بارے میں شبہات پائے جاتے تھے۔ میجر جنرل اعجاز امجد کا اصرار تھا کہ ان کی اہلیہ قادیانی ہیں جبکہ وہ خود مسلمان ہیں۔ چند ملاقاتوں کے بعد میں نے ان کو مشورہ دیا کہ ان کی بیوی کو مسلمان ہونا چاہیے لہٰذا یہ طے پایا تھا کہ ان کا نکاح دوبارہ پڑھا دیا جائے۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک، میجر جنرل ترمذی اور کرنل امجد اس کے گواہ تھے۔ سب کچھ ہونے کے بعد بھی میجر جنرل اعجاز امجد لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی نہ پاسکے۔ (بحوالہ بریگیڈیئر مستنصر بااللہ کی تصنیف ‘آپریشن خلافت’)

مفتی سعید نے اسلام آباد کچہری میں پیش ہوکر گواہی دی ہے کہ انہوں نے لاہور میں یکم جنوری 2018 کو عمران خان اور بشریٰ ریاض وٹو کا نکاح پڑھایا اور نکاح سے پہلے عزیز و اقارب سے پوچھا بھی تھا کہ کیا نکاح کی شرائط پوری ہیں تو یقین دلایا گیا تھا کہ تمام قانونی و شرعی تقاضے پورے ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی بنی گالہ میں بطور میاں بیوی رہنے لگے۔ اس کے بعد مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ نکاح اور شادی کی تقریب فراڈ پر مبنی ہے۔ کچھ دن بعد عمران خان نے ان سے رابطہ کرکے کہا کہ دوبارہ نکاح پڑھوانا ہے۔ جب وجہ پوچھی تو عمران خان نے کہا کہ طلاق نومبر2017 میں ہوئی تھی اور یکم جنوری 2018 کو نکاح اس لیے ضروری تھا کہ پیشگوئی تھی ‘اگر میں سال 2018 کے پہلے دن بشریٰ بی بی سے شادی کروں گا’ تو میں وزیرِاعظم بنوں گا۔

اس بیان حلفی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی غیر شعوری طور پر سرزد نہیں ہوئی بلکہ جان بوجھ کر دانستہ اس کا ارتکاب کیا گیا اور یہ کہہ کر عمران خان کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ بشریٰ بی بی نے انہیں لاعلم رکھا۔ ایسا ضعیف العتقاد، توہم پرست اور جادو ٹونے پر یقین رکھنے والا شخص جو محض ایک پیشگوئی کی وجہ سے شرعی حدود کو پامال کرنے میں عار محسوس نہ کرے، کیا وہ قوم کی قیادت کا اہل ہوسکتا ہے؟

بعض بزرجمہر یہ تاویل پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ 2 افراد کا ذاتی فعل اور نجی معاملہ ہے، جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ روحانیت کی شدت میں دورانِ عدت نکاح سے ملک و قوم کا کوئی نقصان نہیں ہوا تو اس معاملے کوعدالتوں میں لانا درست نہیں۔

تکلف برطرف، یہ کسی لبرل یا سیکولر سیاستدان کا معاملہ نہیں، اس شخص کی بات ہورہی ہے جس کے ہاتھ میں تسبیح اور زبان پر ریاستِ مدینہ کا ورد ہے، جو لاالا اللہ سے تقریر کا آغاز کرتا ہے، جو ہر موقع پر اپنی سیاست چمکانے کے لیے اسلامک ٹچ دینا نہیں بھولتا، جو اُٹھتے بیٹھتے روحانیت کا راگ الاپتا ہے، جو بشری کمزوریوں کی بنیاد پر اپنے سیاسی مخالفین کی گردنیں کاٹتا پھرتا ہے، جو اپنی سیاسی لڑائی کو حق و باطل کا معرکہ قرار دیتا ہے، جو اپنی تقریروں میں خود کو حسینؓ اور مخالفین کو یزید سے تشبیہ دیتا ہے، جو امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کی تفسیر، تشریح اور تعبیر یہ بیان کرتا ہے کہ تم عمران خان کا ساتھ دو اور اس کے سیاسی مخالفین کو روند ڈالو، لیکن جب اس کا اپنا کردار سب کے سامنے لایا جاتا ہے تو ذاتی زندگی کی بل میں چھپ جاتا ہے۔

ستمبر 2022 کو چشتیاں میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عالی مرتبت عمران خان نے فرمایا ‘اگرآپ میں سے کسی نے بھی اس کو (یعنی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو) ووٹ دیا تو اس کا مطلب آپ بھگوڑے نوازشریف کو ووٹ دے رہے ہیں، مجرم کو ووٹ دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب آپ بُرائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کا مطلب کہ آپ اللہ کے فرمان کے خلاف جا رہے ہیں’۔

آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ منتخب عوامی نمائندوں اور سیاسی قیادت کی نجی زندگی بھی قوم کی امانت ہوتی ہے، اسے بھی کُھلی کتاب کی طرح ہونا چاہیے۔ مغربی جمہوریت کی ہی مثال لے لیں، سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی اسکینڈل پر مواخذے کی کارروائی کا سامنا کیوں کرنا پڑا تھا؟ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن کے پورن اسٹار کے ساتھ جنسی تعلقات تھے اور انہوں نے منہ بند رکھنے کے لیے اسے رشوت دی، ان پر فرد جرم کیوں عائد کی گئی ہے؟ آئی ایم ایف کے سربراہ Strauss-Kahn کو نیویارک ہوٹل میں ایک خاتون کا جنسی استحصال کرنے پر کیوں مستعفی ہونا پڑا؟

اگر ملک و قوم کو سیاسی قیادت کے ذاتی معاملات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو حذف کردیں اور آپ بھی پارسائی و پرہیز گاری کا لبادہ اُتار پھینک دیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp