شام میں حکومتی فوج کے خلاف لڑنے والے اتحادی جنگجو کون ہیں؟

بدھ 4 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ ہفتے شام میں حکومت مخالف اتحادی جنگجوؤں نے ایرانی اور روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی افواج کے خلاف شدید حملے کرکے حلب کا کنٹرول سنبھال کر پوری دنیا کو حیران کردیا تھا۔ شامی فوج کے خلاف پیش قدمی کرنے والے اب ایک اہم شہر حما کے قریب پہنچ چکے ہیں، حما پر جنگجوؤں کے حملے سے صدر بشارالاسد پر دباؤ بڑھے گا جن کے روسی اور ایرانی اتحادی ان کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔

2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے حما شہر حکومت کے قبضے میں ہے۔ شام میں حکومت مخلاف اتحادی گروہوں کے حملوں سے تقریباً وہی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جو 2011 میں خانہ جنگی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت شام کا بیشتر حصہ بشارالاسد کے کنٹرول سے باہر ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام کی لڑائی کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، اقوام متحدہ

’العربیہ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، شام میں بیشتر عسکری قوتوں کو بین الاقوامی یا علاقائی حمایت حاصل ہے۔ یہ عسکری اتحاد بنیادی طور پر تحریرالشام (ایک اسلامی گروپ) اور دیگر ہم آہنگ جہادی گروپوں پر مشتمل ہے، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

تحریرالشام

تحریرالشام ایک عسکری تنظیم ہے جو ماضی میں ’النصرہ فرنٹ‘ کہلاتی تھی۔ یہ القاعدہ کا حصہ رہ چکی ہے، اس کے اتحادی دھڑوں نے حلب سمیت ادلب گورنری (شمال مغربی علاقے) کے تقریباً نصف اور ملحقہ محدود حصوں پر کنٹرول کر لیا ہے۔ اس نے حلب، حماۃ اور لاذقیہ گورنریوں کا تقریباً 3 ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران پر امداد کی آڑ میں ہتھیار شام اسمگل کرنے کا الزام

اس خطے میں حکومت مخالف کم باثر دھڑوں کے علاوہ ’ ترکستان اسلامک پارٹی‘ جیسے انتہا پسند جہادی گروپ بھی ہیں جن کی طاقت میں 2011 کے بعد بتدریج کمی واقع ہوئی لیکن حلب پر حملے کے بعد ان دھڑوں نے اپنے زیرقبضہ علاقوں کو دوگنا کرلیا ہے۔ اب حلب شہر، وسطی حماۃ اور ادلب کے دیہی علاقوں کے درجنوں قصبوں اور شہروں پر انہی کا کنٹرول ہے۔

کرد جنگجو

کرد جنگجوؤں نے 2012 کے بعد اپنے زیرقبضہ شمال اور مشرقی علاقوں میں اپنی انتظامیہ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت شامی فوج لڑے بغیر بغیر ملک اس ایک بڑے حصے سے دستبردار ہو گئی تھی۔ ان علاقوں میں بتدریج کرد جنگجوؤں کے ساتھ امریکی فوج بھی تعینات ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز

2015 میں ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے لیے کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان یونٹس میں عرب اور شامی عیسائی دھڑے شامل ہیں۔ ان دھڑوں میں ’ایس ڈی ایف‘ کو خود مختار انتظامیہ کا عسکری ونگ سمجھا جاتا ہے۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز جنہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم خدمات انجام دیں شامی فوج کے بعد زمین پر قبضہ کرنے والی دوسری فوجی قوت ہے۔ آج یہ ملک کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قابض ہے، جہاں تقریباً 30 لاکھ لوگ رہتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا اسرائیل کو سوچا سمجھا ’جواب‘ دینے کا عندیہ

شام کے اہم آئل فیلڈز سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے کنٹرول میں ہیں، جن میں ملک کا سب سے بڑا العمر آئل فیلڈ دیر الزور میں التناق اور جعفرا کے ساتھ ساتھ الحسکہ اور رقہ میں چھوٹے آئل اور گیس فیلڈز بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیر الزور میں کونیکو گیس فیلڈز اور حسکہ میں سویڈش گیس فیلڈز بھی انہی کے کنٹرول میں ہے۔

ترکیہ کے وفادار گروپ

شام کی خانہ جنگی کے باعث ترکیہ اور ایران کے درمیان تعلقات 2015 اور 2016 میں کشیدہ تھے۔ شام کی خانہ جنگی میں دوسرے ملکوں نے بھی حصہ ڈالا لیکن دشمنی کی آگ ایران اور ترکی کے درمیان بھڑک اٹھی تھی۔ 2016 کے بعد سے ترکیہ نے اپنے وفادار شامی دھڑوں کے ساتھ مل کر شمالی شام میں کرد جنگوؤں کو اپنی سرحدوں سے دور دھکیلنے کے لیے کئی فوجی کارروائیاں کیں۔

ترک افواج اور ان کے وفادار دھڑے حلب کے شمال مشرقی دیہی علاقے جرابلس سے اس کے مغربی دیہی علاقوں میں عفرین تک پھیلی سرحدی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، جو الباب اور عزاز جیسے بڑے شہروں سے گزرتی ہے۔ وہ سرحدی شہروں راس العین اور تل ابیض کے درمیان 120 کلومیٹر طویل ایک علیحدہ سرحدی علاقے کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا اسرائیل کو سوچا سمجھا ’جواب‘ دینے کا عندیہ

ان دھڑوں میں ترکیہ کے وفادار دھڑے اور اس سے وابستہ جنگجو گروپ شامل ہیں جنہیں ’سیرین نیشنل آرمی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ترکیہ کے حمایت یافتہ گروہ بنیادی طور پر شمال میں سرگرم ہیں۔ سلطان مراد دھڑا اور دوسرے ترک شمالی شام میں فوجی کارروائیوں کے ساتھ ابھرے، جن میں ’الحمزہ‘ اور ’سلیمان شاہ‘ دھڑے شامل ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق، اگرچہ حلب پر حملے کی ذمہ داری شامی ادارتی بورڈ اور دیگر اسلام پسند مسلح گروپوں کی ملیشیا پر عائد کی گئی تاہم ادلب میں مقیم ترک حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی موجودگی کے بارے میں بھی رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل لڑائی پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں، ماہر امور قومی سلامتی

اگر یہ رپورٹس درست ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ حلب کی جنگ کے آٹھ سال بعد اردوغان کو ان کے صبر و تحمل کا پھل مل گیا۔ اس مرتبہ روس یوکرین کے ساتھ مصروف ہے اور ان کی فوج شام میں بشار الاسد کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور پاسدارانِ انقلاب اور حزب اللہ کے پاس ​​حکمت عملی و لاجسٹک صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے شام کی صورت حال ایران اور ترکی کے درمیان شطرنج کے کھیل سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ کرد ملیشیا جس طرح سے حلب کے کرد باشندوں کا دفاع کر رہی ہے، یہ اور اس جیسے بہت سے عوامل جنگ کا رخ موڑ سکتے ہیں۔

داعش

’العربیہ‘ کی رپورٹ کے مطابق، 2014 میں شام اور عراق میں بڑے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے بعد شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کو دونوں ممالک میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ 2019 میں اس کے زیرکنٹرول تمام علاقے اس سے چھین لیے گئے۔ تب سے اب تک تنظیم کے 4 رہنما مارے جا چکے ہیں، لیکن اس کے چھپے ہوئے ارکان اب بھی موجود ہیں اور حکومت کے خلاف محدود حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ میں جنگ نہیں چاہتے، اسرائیل تنازع میں شامل کرنے کے لیے اکسا رہا ہے، ایرانی صدر

داعش اکثر شامی فوج کے خلاف شام کے وسیع و عریض صحرائی علاقے میں حملوں کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کے جنگجو اب بھی دیر الزور گورنری میں سرگرم ہیں، جہاں وہ اکثر شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ داعش کے جنگجو شامی فوج اور ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

شامی  افواج

2011 میں خانہ جنگی کے بعد شروع کے چند برسوں کے دوران شامی فوج نے ملک کے زیادہ تر علاقے کو کھو دیا تھا۔ تاہم، ستمبر 2015ء میں روسی مداخلت کی بدولت طاقت کا توازن شامی کے حق میں ہوا۔ گزشہ ہفتے ہونے والے حملوں کے بعد روسی فضائی مدد، ایرانی فوجی مدد اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ حکومتی افواج نے مخالف دھڑوں کے حملے شروع ہونے سے پہلے، ملک کے دو تہائی علاقے پر کنٹرول کرلیا تھا۔ ان علاقوں میں 12 ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔

آج حکومتی افواج دمشق اور اس کے دیہی علاقوں کے علاوہ جنوب میں سویدا، درعا اور قنیطرہ، حمص، حماۃ، طرطوس اور لطاکیہ کے سب سے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ شامی فوج کا حلب گورنری کے کچھ حصوں، جنوبی رقہ کے دیہی علاقوں اور دیر الزور گورنری کے نصف حصوں پر بھی کنٹرول ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ پاکستان کو کس طرح سے متاثر کرسکتی ہے؟

حکومت افواج کو مقامی گروہوں کی مدد حاصل ہے۔ ان کی وفادار قومی دفاعی افواج اور دیگر ایران کے وفادار ہیں جن میں افغان، پاکستانی، عراقی اور لبنانی حزب اللہ کے جنگجو شامل ہیں۔ شامی فوج بنیادی طور پر دیر الزور میں الورد، التیم، الشولہ اور نشان آئل فیلڈز، رقہ میں الثورہ فیلڈ اور حمص میں جزل فیلڈ کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس میں الشعر فیلڈ، سب سے بڑا گیس فیلڈ اور حمص میں صاد اور اراک فیلڈز بھی ہیں۔

حالیہ مہینوں میں اسرائیل کے پے در پے حملوں نے خطے خصوصاً لبنان اور شام میں طاقت کے کھیل میں ایران کی صلاحیتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر مستقبل قریب میں شامی حکومت کے مخالف جنگجو ملک کے زیادہ حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ایران کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp