کرشن چندر کے افسانے ‘ کنڈا گام ‘ کے مطالعے سے برصغیر کے سادہ لوح عوام مختلف قسم کے شعبدہ بازوں کی رنگ بازی کو سمجھ سکتے ہیں جو خلقِ خدا کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ کبھی بنامِ وطن کبھی بہ حیلہ مذہب۔اس افسانے میں یہ سبق بھی ہے کہ دوسروں کو مکر کے ذریعے پھانسنے والے آخر کار خود بھی فریبیوں کی لگائی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں ۔
‘کنڈا گام’ 1966 میں ماہنامہ ‘ کتاب’ لکھنؤ میں شائع ہوا جس کے ایڈیٹر عابد سہیل تھے۔ سولہ برس پہلے آصف فرخی نے اسے اپنے رسالے ‘ دنیا زاد’ میں کرشن چندر کے بارے میں خصوصی گوشے میں شامل کیا تو اس کے ساتھ عابد سہیل کا تعارفی نوٹ بھی تھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ‘ اس افسانے میں ٹھہراؤ اور روانی کا بڑا خوبصورت امتزاج ہے۔’
یہ افسانہ مہاراشٹر اور میسور کے سرحدی جھگڑے کے پس منظر میں ہے۔ اس پر قارئین کے ردعمل کا ایک نمونہ اور کرشن چندر کا جواب بھی ‘دنیا زاد’ کا حصہ ہے۔
بمبئی سے قادر شیخ نے کرشن چندر پر مہاراشٹر کے عوام اور ان کی لسانی اور جمہوری تحریک کی ہتک کا الزام عائد کرکے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا ۔
کرشن چندر نے دلیل اور شائستگی سے قادر شیخ کا الزام رد کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ آزادی کے بعد لسانی بنیادوں پر ہندوستان کی تنظیم ہو چکی ہے، پھر بھی اگر صوبائی حد بندیوں میں کوئی سقم رہ گیا ہے تو معمولی سرحدی جھگڑے کے لیے تحریک چلانا، لوگوں کو بھڑکانا، کرناٹک اور مہاراشٹر کے عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بونا کہاں کی دانش مندی ہے؟ وہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔
سو باتوں کی ایک بات کرشن چندر نے اپنے خط میں یہ کہی :
‘ ایک کنڈا گام اگر کرناٹک میں رہ گیا یا کرناٹک کا کوئی شہر یا چند گاؤں مہاراشٹر میں رہ گئے تو کون سی آفت آ جائے گی؟ کنڈا گام کہیں بھی رہے، رہے گا بھوکا ہی۔ اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔’
کرشن چندر کے اس بیان سے مجھے ظفر اقبال کا شعر یاد آگیا ہے:
مجھے دیا نہ کبھی میرے دشمنوں کا پتا
مجھے ہوا سے لڑاتے رہے جہاں والے
ریاستیں اور لیڈر مذہبی، لسانی اور قوم پرستی کے کارڈ کے ذریعے عوام کے ذہن مسخر کر کے اپنے لیے ہمدردی پیدا کرتے ہیں۔ مسائل حل کرنے میں ناکامی پر بھی یہی کارڈ بروئے کار آتے ہیں۔ ان قوتوں کے مقاصد انتشار اور سخت گیری میں پنپتے ہیں اس لیے وہ اختلاف اور ہیجان کو ہوا دیتے ہیں۔
کرشن چندر نے خط میں ان عناصر کی طرف اشارہ کیا ہے:
’ہمارا ملک اس وقت انتشار پسندوں کی زد میں ہے جو کبھی علاقائی، کبھی لسانی، کبھی تمدنی، کبھی تاریخی اور جغرافیائی بنیادوں پر جھگڑے پیدا کرکے ہمارے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی توجہ ملک کے اصلی اور بڑے مسائل یعنی غریبی، جہالت، بے روزگاری، مہنگائی وغیرہ سے ہٹا کر عوام کی صفوں میں انتشار پیدا کرتے ہیں اور عوام کی اصل جدوجہد کا رخ غلط سمت کو موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
افسانہ پڑھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے یہ کہانی لکھی بے شک 58 سال پہلے گئی تھی لیکن اس کا متن آج بھی حسبِ حال ہے۔
افسانہ کی قرآت سے ہی کرشن چندر کی تخلیقی ہنر مندی کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے لیکن ہم اس کا خلاصہ بیان کر دیتے ہیں جس سے کم از کم لکڑ بابا کی باریک چالیں، اس کا انجام اور مظاہرین کی سفاکی کا پتا چل سکے گا۔
لکڑ بابا کنڈا گام کا رہائشی ہے۔ پڑھائی میں اول درجے کا نکما۔ میٹرک میں تین دفعہ فیل ہونے کے بعد بمبئی سدھارا لیکن وہاں بھی نامراد ہی رہا۔ فاقوں کی نوبت آئی تو فقیر کا روپ دھارا۔ لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا بت اس کی ملکیت تھا جس کا سر، چہرہ، گردن اور بائیں شانے کا ایک حصہ ہی سلامت تھا۔ اب اس کی ہیئت کذائی ایسی تھی کہ وہ شو کی مورتی معلوم ہوتی تھی۔کرشن چندر کے الفاظ میں’ اور اس سمے کی تفسیر تھی جب شو جلال میں آ گئے تھے اور ساری دنیا کو بھسم کرنے پر تل گئے تھے۔‘
لکڑ بابا نے مجذوب کا بہروپ اختیار کیا۔ ڈاڑھی بڑھائی۔ گیروے کپڑے زیب تن کیے۔ کالے رنگ کی مالائیں گلے میں ڈال جامن کے پیڑ کے نیچے جا بسرام کیا۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے دیول بنایا۔ لکڑی کے چہرے پر سیندور مل کر اسے دیول میں رکھ دیا جس پر صورت حال نے کرشن چندر کے لفظوں میں یہ صورت اختیار کی:
’صبح سویرے جب سورج کی پہلی کرنیں اس چہرے پر پڑتیں تو شنگرفی رنگ کا لکڑی کا چہرہ سچ مچ غیظ و غضب میں گھورتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر لکڑ بابا دیول کے قدموں میں بیٹھے ہوئے گاہے گاہے اپنا پرانا زنگ آلود بڑا سا چمٹا اٹھاتے اور دو تین بار زمین پر زور زور سے پٹک کر کہتے ’جلا ڈالوں گا بھسم کردوں گا۔‘ یہ خوف ناک آوازسن کر اور شو جی کا جلال میں آیا ہوا چہرہ دیکھ کر بہت سے راہ چلتے رک جاتے اور جھک کردیول کو ڈنڈوت کرتے اور حسبِ استطاعت چڑھاوا بھی چڑھاتے۔‘
لکڑ دیول کے کارن اسے لکڑ بابا کہا جانے لگا۔ اس ڈھونگی کا دھندہ چل نکلا۔ دلدر دور ہوئے۔ پانچ برسوں میں پہلی دفعہ گھر والی کو بمبئی سے کچھ رقم بھیجنے جوگا ہوا۔ اس جعل ساز کی شہرت کو پر لگ گئے۔ خاص کر مراٹھی عوام میں اسے بہت مقبولیت ملی۔
وقت گزرتا گیا۔ اس کے گھر لہر بہر ہو گئی۔ بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دیے۔ دونوں بیٹے پڑھنے لکھنے میں لگے تھے۔ پچاس کے پیٹے میں دھندے سے بیزار ہو کر اسے تیاگ دینے کا خیال آیا تو اسے بیوی نے رد کر دیا کیونکہ وہ اس لکشمی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی تھی جو برسوں سے بلا تعطل اسے مل رہی تھی۔
بیوی سے دور رہنے کے باعث لکڑ بابا نے چنبیلی نام کی بیوہ ڈال رکھی تھی۔ وہ بھی بابا کو اسی کام میں ملوث دیکھنا چاہتی تھی۔ لکڑ بابا آمدنی کا معتدبہ حصہ زیر زمین بڑی ہانڈی میں دفن کرکے لگ بھگ تیس ہزار جوڑ چکا تھا اور اس کا خیال تھا کہ بس دس ہزار اور ہو جائیں تو سیاحت کے لیے نکل کھڑا ہو لیکن اس عزم کی تکمیل سے پہلے وہ بیمار پڑ گیا۔ طبیعت ایسی بگڑی کے ایک دن ڈاکٹر نے جواب دے دیا اور کہا کہ اس کے بچنے کی امید نہیں۔ دو تین دن میں چٹ پٹ ہو جائے گا۔
اتفاق سے ڈاکٹر نے جس دن یہ بات کہی شہر میں ایک جلوس نکلا جو اس لیے سراپا احتجاج تھا کہ کنڈا گام اور اس کے اطراف و جوانب کا علاقہ مہاراشٹر میں شامل نہیں ہوا جبکہ وہاں مراٹھوں کی اکثریت تھی۔ کرناٹک کے عوام اس علاقے پر اپنا حق جتاتے تھے۔ جلوس شہر کی مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا لکڑ بابا کے ڈیرے کے پاس پہنچا جہاں وہ آخری سانسیں گن رہا تھا اور آج سچی مچی ہذیان بک رہا تھا۔ اس کی کوئی بات پلے نہ پڑتی تھی۔ بس کنڈا گام کا لفظ ہی سمجھ میں آتا تھا کہ شاید تحت الشعور میں وہ اپنے گھر اور بیوی بچوں کو یاد کر رہا تھا۔
اس اثنا میں جلوس کے شرکا نے وہ نعرے لگائے جس میں کنڈا گام کی تکرار تھی۔ ’لے کے رہیں گے کنڈا گام۔ مہاراشٹر کا ہے کنڈا گام۔ لڑ کے لیں گے کنڈا گام‘ وغیرہ وغیرہ۔ کنڈاگام کا نام سن کر لکڑ بابا کے منہ سے بھی نکلا کنڈا گام۔ جلوس میں شامل جوشیلے نوجوان کنڈا گام کا نام سن کر بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے قیاس کیا لو جی بابا بھی ان کی تحریک کے ساتھ ہے۔ چنبیلی اور بابا کے چیلے جگن ناتھ نے بھیڑ کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی۔ بتایا کہ بابا بہت علیل ہے۔ اس کے بچنے کی امید نہیں۔ چنبیلی اور جگن ناتھ نے یہ اس لیے کہا تھا کہ مجمع اس کی حالت پر رحم کھا کر آگے بڑھ جائے لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کلمات اس کی موت کا باعث بن جائیں گے۔ نوجوانوں نے اپنی تحریک کو بھڑکانے کے لیے لکڑ بابا کو ایندھن بنانے کا فیصلہ کیا اور پیٹرول چھڑک کر اسے آگ لگادی۔ وہ کن خطوط پر سوچ رہے تھے اس کے بارے میں کرشن چندر نے لکھا:
‘مرنے والا تو ہیئ ۔ سالے کو جلا دو۔‘
’اخباروں میں نکلے گا ایک مراٹھی سادھو کنڈا گام حاصل کرنے کے لیے جل کر مر گیا۔پہلے صفحے پر سرخی آئے گی۔ حکومت کو کنڈا گام اپنے کو دینا ہی پڑے گا۔‘
انقلابیوں نے لکڑ بابا کو زندہ جلا دیا۔ اس کا جسم جل رہا تھا اور اس کے لیے زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ چند افراد نے نوجوانوں کو لکڑ بابا پر پیٹرول چھڑکتے دیکھا تھا اس لیے ہجوم کی اکثریت نے سمجھا کہ لکڑبابا نے کنڈا گام کو مہاراشٹر میں ضم کرنے کی خاطر جان دی ہے۔
اب کچھ حصہ کرشن چندر کے لفظوں میں:
’اتنے میں دو پریس فوٹو گرافر بھی کہیں سے آگئے۔ اور دھڑا دھڑ اس منظر کی تصویریں اتارنے لگے۔ زندگی میں اتنا بڑا اسکوپ انہیں پہلی بار ملا تھا۔ کل ہندوستان کے سارے اخباروں کے پہلے صفحے پر جلتے ہوئے لکڑ بابا کی تصویر ہو گی۔‘
اس افسانے میں کئی کہانیاں ہیں۔ ہم نے زندگی میں کتنے ہی نکمے دیکھے ہوں گے جنہوں نے ڈھونگی بن کر شہرت اور دولت سمیٹی۔ صوفی اور سادھو ںن کر لوگوں کو جل دیا۔ لکڑ بابا سے ناکام بندے نے بھی مذہب کو کاروبار بنایا تو اس کے دن پھر گئے۔
دوسری بات احتجاجی تحریکوں کی ہے جو انسانی مفاد کے نام پر چلائی جاتی ہیں لیکن ان کے پس پردہ محرکات اور مفادات سے تحریکوں کا ایندھن بننے والے بے خبر ہوتے ہیں۔
لکڑ بابا کو نذرِ آتش کرنے کے مقصد جھوٹ کی بنیاد پر تحریک کو اٹھانا اور اخبار کی سرخیوں میں اسے جگہ دلانا تھا۔
اصل حقائق تک تھوڑے لوگوں کی رسائی دے جاتی ہے اور اکثریت کو بےخبری کی مار ماری جاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ لکڑ بابا نے ان کی تحریک کے لیے جان جان آفریں کے سپرد کی۔ جب موقع پر موجود لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا سکتا ہے تو روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ کا بیوپار کس پیمانے پر ہو سکتا ہے اس کی تباہی کا اندازہ ہم کو اچھی طرح ہو رہا ہے۔ جھوٹ کے ساتھ پیسے اور شہرت کے جوڑ نے صورت حال اور بھی خوفناک بنا دی ہے۔ سیاسی پولرائزشن کی وجہ سے ڈرامے بازوں کا کام اور بھی سہل ہو گیا ہے۔اوپر سے زہریلے چورن کے خریدار بھی وافر ہیں۔
سچائی میں کسی کی دلچسپی نہیں۔ سب اپنے اپنے حصے کا جھوٹ سن کر اس پر یقین کرتے ہیں، اسے آگے پھیلاتے ہیں۔
اس افسانے میں لکڑ بابا کی تصاویر بنانے کے لیے فوٹو گرافروں کی مستعدی کا منظر ہم سب کے لیے بہت جانا پہچانا ہے جس کی ترقی یافتہ اور بدترین شکل یوٹیوبرز کی پھرتیوں کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے۔
لکڑ بابا کے سحر میں خلقت کے کھنچے چلے جانے سے میرے ذہن میں ہرمن بروخ کے ناول ‘دی سپیل’ کے بارے میں ڈاکٹر سہیل احمد خان کے مضمون کا خیال آیا جو ان کی کتاب ‘سیربین’ میں شامل ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’بروخ کا ناول (The Spell) اجتماعی نفسیات کے ایک خاص رخ سے منسلک ہے۔ یہ ایک سطح پر سیدھا بیانیہ ہے اور ایک سطح پر انسانی نفسیات کی تمثیل بھی ہے۔ بروخ کا سوال یہ ہے کہ انبوہ کی نفسیات کیا ہے؟ ہجوم کیوں کسی ایسے کردار کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے جو دراصل تشدد کا مظہر ہوتا ہے۔ ہجوم کی نفسیات میں وہ کون سے عوامل ہیں جن سے ان کے اندر کی حیوانیت کسی خارجی مظہر سے مسحور ہوکر تسکین پاتی ہے۔
’۔۔۔قصہ کچھ یوں ہے کہ گاؤں میں عجیب حلیے کا نیم دیوانہ یا مجذوب کردار وارد ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک ’پیغام‘ بھی ہے۔ فطری زندگی کی طرف لوٹنے کا پیغام۔ شروع شروع میں تو گاؤں والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ اس کی باتوں سے مسحور ہونے لگتے ہیں۔ وہ گاؤں والوں کے لالچ کو پرکشش انداز میں ابھارتا ہے اور پورا گاؤں اس کے جادو کے حصار میں آجاتا ہے۔ اب وہ اسے یوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے ان کے تمام مسائل کا حل کرنے والا مسیحا وہی ہے۔ حتیٰ کہ ایک بوڑھی عورت کی قربانی بھی دی جاتی ہے۔‘
صاحبو ! بات یہ ہے کہ تمام مسائل حل کرنے والے مسیحاؤں کی تلاش آمروں کے ظہور کا باعث بنتی ہے۔ یہ تمنا ایک تو بہت پرانی ہے اور دوسرے آج کی طرح پہلے زمانوں میں بھی یہ صرف عام عوام سے مخصوص نہیں رہی بلکہ بڑے بڑے عالم فاضل بھی ہیرو پرستی میں مبتلا رہے ہیں۔ قدیم یونان میں اس کی ایک مثال مؤرخ اور نثر نگار کسینو فون کی ہے۔ محمد سلیم الرحمٰن نے ‘ مشاہیر ادب یونانی’ میں کسینو اور اس کے ہم عصروں کی فکر کا ست ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
‘ان کی توجہ کا مرکز فرد بنتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ کسی ایسے مرد کامل کی تلاش میں تھے جو ایک ہی ہلے میں تمام خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ ہیرو پرستی گویا کسینو فون کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اسے جہاں بھی کوئی باکمال یا ذی اقتدار اور مسحور کن شخصیت نظر آئی وہ اس کی طرف کھنچا چلا گیا۔‘
بات کنڈا گام سے چلی اور یونان تک پہنچی۔کرشن چندر کا کمال ہے کہ ان کے فکشن کی عصری معنویت اجاگر ہوتی رہتی ہے اور مجھ جیسے ادب اور تاریخ کے طالب علموں کو بہت سے معاملات کو گہرائی میں جا کر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
کنڈا گام پر معروضات آپ نے پڑھ لیں چند سال پہلے کرشن چندر کا افسانہ ‘جامن کا پیڑ’ ہندوستان میں نصاب سے نکال دیا گیا تھا کہ اس میں ان بے حس سرکاری عمال پر چوٹ تھی جن کے نزدیک مصیبت میں گھرے شخص کی مدد کرنے سے حکومتی ضابطے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ کنڈا گام بھی نصاب میں شامل ہوتا تو مودی کے ہندوستان میں اسے بھی نصاب سے نکال دیا جاتا۔