مرید، مرشد اور مُلک

بدھ 11 دسمبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مرید اور مرشد کا رشتہ بہت عجیب ہوتا ہے۔ اس میں اطاعت لازمی ہوتی ہے۔ رازداری شرط ہوتی ہے۔ فرمانبرداری لازم ہوتی ہے۔ بیعت کرنا پڑتی ہے۔ انکارکی گنجائش نہیں ہوتی ہے

جنرل فیض حمید کو چارج شیٹ کر دیا گیا۔ کیس روز بہ روز آگے بڑھا ہے۔ الزامات بہت سنگین ہیں۔ کرپشن بھی ہے، اختیارات سے تجاوز بھی, سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت بھی ہے اور 9 مئی کا انتشار بھی۔ فیصلہ آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، لیکن فیصلہ دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے۔

اگر معافی کا ارادہ ہوتا تو کیس اس نہج  پر پہنچنے سے بہت پہلے دم توڑ چکا ہوتا۔ لیکن یہ کیس ملٹری کورٹ میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے۔ جیسے جیسے کیس آگے بڑھتا ہے، ہر دفعہ ایک نیا ہنگامہ مچتا ہے۔ کبھی فائنل کال کا شور مچتا ہے، کبھی کوئی پختونخواہ سے پُرتشدد قافلہ نکلتا ہے۔ اس سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہونی کو ٹال دیا جائے۔ جو فیصلہ ہونا ہے اس مؤخر یا منسوخ کر دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی بے گور و کفن لاش

حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ فیصلے اٹل ہوتے ہیں ان کو ہونا ہی ہوتا ہے۔ ان میں دیر سویر ہو سکتی ہے مگر منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ ان فیصلوں کے بعد ہی تاریخ کا نیا سفر شروع ہوگا۔ اس سے پہلے صرف شور ہے، انتشار ہے، ہنگامہ ہے۔ اسکے بعد ہی سکون ہو گا۔ خاموشی ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو ہر دوسرے دن عمران خان کی رہائی کی نوید لوگوں کو سنا رہے تھے۔ کدھر گم ہو گئے ہیں وہ یوٹیوبر جو کہتے تھے کہ سال ختم ہونے سے عمران خان کے اقتدار کا نیا سوج طلوع ہو گا۔ کدھر ہیں وہ ڈالروں کے بدلے تحریک انصاف کے سپورٹرز میں خوشخبریاں تقسیم کرنے والےکہ خان کی رہائی بس ہوئی کہ ہوئی۔

اس نابکار انبوہ نے لوگوں کو بنا کسی وجہ کے امید میں مبتلا رکھا۔ لوگوں کو وہ سنایا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ یہ یو ٹیوبرز حق سچ کے تکلف میں نہیں پڑے۔ انہیں پتا تھا کہ خان کی سپورٹ سے ڈالر نصیب ہوں گے۔ پراپیگنڈے کے بدلے آپ صحافی کہلائیں گے۔ جھوٹ بولنے پر آپ کو عظمت کے تمغے ملیں گے۔ سوشل میڈیا والوں نے لوگوں کو امید میں مبتلا کیے رکھا کہ اب رہائی بس ہونے کو ہے۔ اب قید تنہائی بس ختم ہونے کو ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوا کہ جھوٹ کے اس بیوپار میں انہوں نے لوگوں کو ورغلایا اور ڈالروں کی خاطر بے وقوف بنایا۔  اب مرحلہ یہ ہے کہ حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے کہ خان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

جب ادارے نے فیض حمید کے حوالے سے فیصلہ کر لیا۔ جب اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں پر کریک ڈاؤن کا فیصلہ ہوگیا تو عمران خان کس کھیت کی مولی ہے۔

یہ بھی پرھیں:قاسم اور سلیمان سے ایک سوال

فیض حمید پر کورٹ مارشل کی چارج شیٹ ہونا بہت بڑا واقعہ ہے۔ ادارہ جب اپنے لوگوں کا انتشار کی سزا دے سکتا ہے۔ اپنے لوگوں کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر کورٹ مارشل کر سکتا ہے۔ اپنے ادارے کی بےتوقیری پر اپنے ایک بہت ہی سینیئر جرنل کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے تو پھر کسی اور کی کوئی حیثیت نہیں۔

فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کے بعد وہ یو ٹیوبرز جو عمران خان کی رہائی کے امکان پر شادیانے بجا رہے تھے، ان کو اپنے یو ٹیوب چینلز پر ماتمی دھنیں لگا دینی چاہییں، کیونکہ عمران خان بھی اتنے ہی شریک جرم ہیں۔ ادارے کے خلاف انہوں نے بھی لوگوں کو بغاوت پر اکسایا ہے اور یہ ادارے کو کسی طرح بھی قبول نہیں۔ یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کی سزا بھی اتنی عبرتناک ہو گی کہ زمانہ یاد کرے گا۔

چارج شیٹ کے بعد اگلا مرحلہ ہے لاٹھی چارج کا۔ اب لاٹھی چارج ہو گا۔ ہر اس شخص، ہر اس جماعت، ہر اس ادارے کے خلاف جس نے وطن کی حرمت پر داغ لگایا۔ جس نے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ جس نے ادارے کے اندر بغاورت کی کوشش کی۔ جس نے سرکاری اور فوجی املاک کو نقصان پہنچایا۔

اس معاملے میں پی ٹی آئی سر فہرست ہے۔ ہر دھرنے، ہر مارچ کے بعد ان کے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔جو لوگ ابھی 9 مئی کے مجرمان کو نہیں بھولے، یاد رکھیں وہ 26 نومبر کو رینجرز کے جنازے بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ اب علی امین گنڈا پور ہوں یا کوئی اور، اب بغاوت کی سزا ملے گی۔ اب کسی کو اداروں پر پھبتیاں کسنے کا موقع نہیں دیا جائے۔ اب تضحیک آمیز نعروں، سوشل میڈیا پر پھیلی دشنام کی فیکٹرویوں اور گلی بازاروں میں روا غنڈا گردیوں کو قلع قمع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب تحریک انصاف کے لیے حالات ایک سنگین موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:یہ تم کیا اٹھا لائے ہو

بہت سے لوگ سوچتے ہوں گے کہ حالات کو یہاں تک لانے میں زیادہ قصور کس کا ہے۔ بغاورت کا پہلا درس کس نے دیا؟ ادارے کے خلاف نعرے لگانے کا حکم کس نے دیا؟ شورش کی وجہ فیض حمید ہیں یا عمران خان؟ 9 مئی کا اصل مجرم فیض ہے یا عمران؟ زیادہ قصور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا ہے یا سابق وزیر اعظم کا؟ حالات بگاڑنے کا سہرا کس کے سر سجتا ہے؟ آبپارہ کے سابق رہائشی کا یا  وزیر اعظم ہاوس میں رہنے والے سابق وزیر اعظم کا؟

شواہد نہیں شنید ہے کہ اس تباہ کاری میں 2 نہیں 3 لوگ تھے۔ یہ انتشار ایک تکون کا نتیجہ تھی۔ بہت زیادہ بات نہیں کی جا سکتی۔ خود سمجھ لیں کہ عمران خان کی مرشد بشریٰ بی بی تھیں تو کیا ہے کہ بشریٰ بی بی کے مرشد بھی کوئی رہے ہوں گے۔ یعنی ایک ہی وقت میں بشریٰ بی بی مرشد بی تھیں اور مرید بھی۔ ایک ہی وقت میں وہ بات مان بھی رہی تھیں اور منوا بھی رہی تھیں۔ بات گنجلک ہوتی جا رہی ہے اور کُھل کر بات کی نہیں جا سکتی، بس اتنا سمجھ لیں کہ مرید اور مرشد کا رشتہ بہت عجیب ہوتا ہے۔ اس میں اطاعت لازمی ہوتی ہے۔ بیعت کرنی پڑتی ہے۔ انکار کی گجنائش نہیں ہوتی۔ رازداری شرط ہوتی ہے۔ فرمانبرداری ضروری ہوتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp