قاسم اور سلیمان سے ایک سوال

بدھ 27 نومبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے اس وقت فائنل کال اپنے فائنل انجام کو پہنچ چکی ہے۔ ڈی چوک سے قبضہ چھڑایا جا چکا ہے۔ سری نگر ہائی وے سے روکاوٹیں ہٹائی جا چکی ہیں۔ بلیو ایریا کی صفائی ہو رہی ہے۔ کنٹینر  واپسی کا سفر شروع کر چکے ہیں۔ جگہ جگہ بکھری غلاظتیں صاف کی جا رہی ہیں۔ پولیس واپس آ چکی ہے۔ ٹریفک کا نظام پھر رواں ہو چکا ہے۔ دکانیں کھل چکی ہیں۔ کاوباری ادارے کام شروع کر چکے ہیں۔ حیرت اس سب پر نہیں ہے۔ حیرت کا سبب یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کا ایک بھی کارکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ موٹر سائیکل پر بانی تصویر والا جھنڈا لہراتا ایک بھی جیالہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک پوسٹر بھی ایسا نظر نہیں آ رہا جس پر خان کی تصویر جگمگا رہی ہو۔ پی ٹی آئی کی گاڑیاں، پی ٹی آئی کا  کنٹینر، پی ٹی آئی کے جھنڈے اور پی ٹی آئی کے کارکن سب ایسے غائب ہو گئے ہیں جیسے زمین کھا گئی ہو یا آسمان نے نگل لیا ہو۔  اس نام نہاد انقلاب  کی جھولی  میں اب سوائے سڑکوں، سوشل میڈیا  اور ذہنوں میں پھیلی غلاظت کے کچھ نہیں۔

کتنے دعوے کیے گئے کہ ہم کفن باندھ کر آئیں ہیں۔ کتنے نعرے لگائے گئے کہ میں آخر تک آپ کے ساتھ ہوں۔ کتنے بڑکیں ماریں گئیں کہ اگر خان رہا نہیں ہوا تو ہم تاعمر دھرنا دیں گے۔ سوشل میڈیا پر کتنے ٹرینڈ بنائے گئے کہ ’خان نہیں تو کچھ نہیں‘۔ کتنے پوسٹر چھپوائے گئے جن پر لکھوایا گیا کہ ’خان ہم تجھے رہا کروانے چل پڑے ہیں‘۔ کتنے بینر بنوائے گئے جن پر جلی حروف تک لکھوایا گیا کہ ’خان کی رہائی تک ہم کفن پہنے بیٹھے ہیں۔ بشریٰ بی بی نے علی امین گنڈا پور سے بڑھ کر لوگوں کا حوصلہ بڑھایا۔ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔ آخری سانس تک کارکنوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کفن پہننے کا نعرہ لگانے والے سب سے پہلے بھاگے۔ آخری سانس تک دھرنا دینے والوں نے راہ فرار میں سب سے تیزی دکھائی۔ جو یہ کہتے تھے کہ اب ہماری لاشیں ہی واپس آئیں گی وہ زندہ سلامت ہنستے کھلیتے کارکنوں سے کوسوں دور جا چکے تھے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ پہلے انہیں خان نے ترقی کے نام پر دھوکا دیا۔ 350 ڈیم بنانے کے خواب دکھائے۔ ایک ارب درخت لگانے کے سپنے ان کی آنکھوں میں سجائے۔ ان کو صحت کے سونامی کا مژدہ سنایا۔ ان کو تعلیمی انقلاب کی خوشخبری سنائی۔ ان کو 50 لاکھ گھروں میں بسانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب وعدے جھوٹ نکلے۔ یہ سب خواب ادھورے ہی رہے۔ 9 مئی کا واقعہ کارکنوں سے کروایا گیا۔ ان کو ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے کی ترغیب دی گئی۔ سرکاری عمارات پر حملے کرنے کے لیے بھڑکایا گیا۔ خان کے مقدر میں تو جیل ہوئی مگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی اذیت ختم نہیں ہوئی۔ ان کی قیادت علی امین گنڈا پور نے سنبھال لی۔ جو اب تک 3 دفعہ ان کے ساتھ دھوکا کر چکے ہیں۔ لاؤ لشکر لا کر وفاق پر حملہ کرتے ہیں، کارکن گرفتار کرواتے ہیں۔ اسلحہ برداوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور خود فرار ہو جاتے ہیں۔ اس دفعہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا خیال تھا کہ بشریٰ بی بی ساتھ ہیں۔ اس دفعہ کوئی نہیں بھاگے گا۔ لیکن سب نے دیکھا کہ سب سے پہلے بھاگنے والوں میں 2 افراد تھے۔

ایک لمحے کو سوچیں ان کے دونوں کے قائدین کے فرارکے بعد کارکنوں پر کیا گزری۔ بھگدڑ میں کوئی کچلا گیا، کسی کی موٹر سائیکل خاکستر ہوئی، کسی کا سر پھٹا، کسی کو گرفتار کر لیا گیا، کوئی پولیس کے ڈنڈا برداروں کی زد میں آیا، کسی کے خلاف ریاست سے بغاوت کا مقدمہ درج ہوا، کسی پر دہشت گردی کی دفعہ ڈال دی گئی۔ اب نہ ان کارکنوں کا کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی ان کا مدد گار ہے۔ کوئی ان کی وکالت کرنے والا نہیں کوئی ان کی ضمانتیں بھرنے والا نہیں۔

یہ غریب لوگ انقلاب کے نام پر جمع کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے عزائم تو دہشتگرادنہ تھے۔ ان کے پاس آتشیں اسلحہ بھی تھا۔ ان کے پاس آنسو گیس کے شیل بھی تھے۔ ان سے پستول بھی برآمد ہوئے اور غلیلیں بھی۔ ڈنڈوں سے بھی یہ لیس تھے اور لوہے کے راڈ بھی ان کے پاس دھرے تھے۔ گولیوں کے صندوق بھی ان کے پاس تھے، کلاشنکوف جیسی  بندوقیں بھی ان کے سامان میں دھری تھیں۔ ان کے ارادے دہشتگردانہ تھے اور یہ ملکی امن و سکون برباد کرنے کے درپے تھے۔ یہ امن و امان کے دشمن تھے۔

لیکن سب لوگ ایسے نہیں تھے ۔ کچھ ایسے تھے جن کو نہ انقلاب سے مطلب تھا نہ خان سے۔ وہ بس اس لیے آئے تھے کہ ان کے ایم پی اے نے ان کے گھر راشن ڈالونے کا وعدہ کیا۔ کچھ ایسے تھے جو بس چند ہزار روپوں کے خاطر اس احتجاج میں شریک ہوئے۔ جب ریاست نے رات گئے ایکشن کیا تو وہ اپنے جوتے بھی چھوڑ کر بھاگے اور انہی میں سے بہت سے گرفتار بھی ہوئے۔

دل تو چاہتا کہ خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے پوچھوں کہ تم جو عیش و عشرت میں پل رہے ہو، تو کیا تم کو خبر ہے کہ تمارے باپ نے ذاتی مفاد کے لیے  کتنے گھروں کے چراغ بجھا دیے، کتنی عورتوں کو بیوہ کروا دیا۔ کتنے گھروں کا سکون چھین لیا۔

کے پی کے غیور باشعور جوانوں کبھی تو خان کا گریبان پکڑ کر پوچھو کہ ہمارا خون تو تم ارازنی سے سڑکوں پر بہاتے ہو، ہمیں تو تم جانورں کی طرح ہر احتجاج میں لاتے ہو اور تمہاری اپنی اولاد کبھی لندن میں کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئی۔ کبھی تو پوچھو  خان سے کہ تم نے پشتونوں کے خون کا سودا کس کس سے کیا اور اس صوبے کے جوانوں کو ملک دشمن قوتوں کو کتنے کا بیچا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp