فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 9 مئی 2023 کو مسلح افواج کی تنصیبات بشمول شہدا کی یادگاروں پر منظم حملے کرنے اور اُن کی بے حرمتی کرنے پر 25 مجرموں کو سزائیں سنا دی ہیں، دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے آج صبح اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی تجویز پر پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی اتحاد کے ممبران پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ چئیرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ہم حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں، یہ خوش آئند بات ہے، حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات جامع اور نتیجہ خیز ہونے چاہییں۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایک طرف تو پی ٹی آئی کارکنان کو فوجی عدالت سے سزائیں سنائی گئی ہیں تو دوسری جانب حکومت نے تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم کردی ہے، اس سب کے تناظر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟
یہ بھی پڑھیں عمران خان چور اور بے ایمان، اب کبھی ملک میں 9 مئی برپا نہیں ہونے دیں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
’پی ٹی آئی الجھن اور انتشار کا شکار ہے‘
سینیئر تجزیہ کار حماد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی الجھن اور انتشار کا شکار ہے۔ یعنی ان کے پاس کوئی واضح ڈائریکشن نہیں ہے۔ وہ سوشل میڈیا مہم سے لاتعلقی کا اظہار بھی نہیں کررہے۔
انہوں نے کہاکہ جب فواد چوہدری نے کہاکہ سوشل میڈیا ہمارے لیے مسائل پیدا کررہا ہے تو ان کے خلاف علیمہ خان کا بیان آگیا، جبکہ بیرسٹر گوہر نے کہاکہ فواد چوہدری پارٹی کا حصہ ہی نہیں ہیں، اس کے علاوہ شیر افضل مروت نے بھی یہی کہا۔
انہوں نے کہاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ حکومت کے پاس مذاکرات کے لیے کتنا اختیار ہے، اگر ان مذاکرات کو مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل ہے تو پھر ٹھیک ہے، لیکن اگر ان کی حمایت حاصل نہیں تو پھر یہ سب پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں انگیج کرنے کی حد تک ہے، اس سے زیادہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔
’مذاکرات میں تحریک انصاف کا سب سے پہلا مطالبہ ہی عمران خان کی رہائی ہوگا‘
حماد حسن نے کہاکہ تحریک انصاف کا سب سے پہلا مطالبہ ہی عمران خان کی رہائی ہوگا، اس وقت تحریک انصاف کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اگر وہ مقتدرہ کے ساتھ رابطے میں ہیں تو انہیں وہیں سے کچھ مل سکتا ہے، حکومت کے ساتھ مذاکرات سے کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
انہوں نے مزید کہاکہ عمران خان کی رہائی وزیراعظم اور پارلیمان میں موجود افراد کا اختیار نہیں ہے، یہ جن کا اختیار ہے ان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہیے تھے۔ لیکن موجودہ حالات میں مقتدرہ کے ساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات کا کوئی امکان نہیں کیونکہ تحریک انصاف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ علیمہ خان نے فواد چوہدری کے اخراج کی جو بات کی ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ دونوں اطراف رویہ سخت گیر ہے۔
’اگر عمران خان کو 9 مئی میں سزا ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کے لیے المیہ ہوگا‘
تجزیہ کار احمد ولید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں طرف سے ایک قسم کی جنگ جاری ہے، عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے، لیکن ابھی تو بات چیت کا آغاز ہی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ اب جو سزائیں ہونی ہیں، تحریک انصاف کو بہت زیادہ پریشر کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کہا جارہا ہے کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو بھی سزا دی جائے گی، اس کا واضح مطلب ہے کہ عمران خان کو بھی سزا سنائی جائے گی، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا المیہ ہوگا۔
احمد ولید نے کہاکہ مذاکرات صرف انگیج رکھنے کی حد تک ہوسکتے ہیں، جب سزائیں سنا دی جائیں گی تو پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ فوج پیچھے ہٹ جائے اور سب کو معاف کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی نے 9 مئی کے مجرموں کو فوجی عدالت سے سزاؤں کا فیصلہ مسترد کردیا، چیلنج کرنے کا اعلان
’26 نومبر کے بعد سے تحریک انصاف بیک فٹ پر ہے‘
انہوں نے مزید کہاکہ چونکہ ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ بات کہاں تک پہنچے گی، لیکن ایک چیز ضرور ہے کہ 26 نومبر کے بعد سے تحریک انصاف بیک فٹ پر ہے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ آگے ان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے، اسی لیے اب مذاکرات کی بات پر آمادہ ہوئے تاکہ کہا جاسکے کہ ہماری بات چیت جاری ہے۔