خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کا خلائی جہاز ’پارکر سولر پروب‘ سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں اسے بدھ 25 دسمبر کو کامیابی کی قوی امید ہے۔
بی بی سی کے مطابق پارکر سولر پروب کو سنہ 2018 میں سورج کی طرف روانہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ 4 لاکھ 30 ہزار میل فی گھنٹہ (یعنی لندن سے نیویارک تک 30 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پہنچنے کے برابر) پرواز کرکے ہمارے نظام شمسی کے مرکز یعنی سورج کی جانب بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی کیوب قمر نے چاند کے مدار سے سورج کی پہلی تصویر بھیج دی
سورج کے انتہائی نزدیک شدید موسمی حالات اور درجہ حرارت کے باعث یہ خلائی جہاز گذشتہ کئی دن سے زمین سے رابطہ بھی نہیں کر سکا اور فی الحال سائنسدان اس مشن کی جانب سے ملنے والے سگنل کے منتظر ہیں۔
ناسا کے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ یہ سگنل 27 دسمبر کو مل سکتا ہے۔ اس سگنل سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ آیا یہ مشن سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کے لیے درکار سخت ترین مراحل عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے یا نہیں۔اس مشن کے ذریعے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ سورج درحقیقت کیسے کام کرتا ہے۔
ناسا میں ہیڈ آف سائنس ڈاکٹر نکولا فوکس نے بتایا کہ لوگوں صدیوں سے سورج کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں لیکن ہم سورج کے ماحول کا اُس وقت تک تجربہ نہیں کر سکتے جب تک ہم اس کے انتہائی قریب سے نہ گزریں۔
مزید پڑھیے: چین چاند کی مٹی سے بنی اینٹیں کہاں استعمال کرنا چاہتا ہے؟
اپنے سفر کے دوران پارکر سولر پروب پہلے ہی 21 مرتبہ سورج کے پاس سے گزر چکا ہے اور ہر چکر میں یہ اس کے مزید قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
شدید حرارت سے بچنے کے لیے کیا اہتمام کیا گیا ہے؟
تاہم سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کا یہ ریکارڈ 25 دسمبر کی شام ٹوٹ سکتا ہے۔ اس وقت یہ خلائی جہازسورج کی سطح سے 62 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ پارکر سولر پروب کو 1400 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور شدید تابکاری کو برداشت کرنا پڑے گا جو اس خلائی جہاز میں موجود الیکٹرانکس کو بھی جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے اس خلائی جہاز کو ساڑھے 4 انچ موٹی کاربن کی بنی شیلڈ سے محفوظ بنایا گیا ہے۔
اس مشن سے کیا حاصل ہوگا؟
سائنسدانوں کو امید ہے کہ یہ خلائی مشن جب سورج کی بیرونی فضا، جسے کورونا کہتے ہیں، سے گزرے گا تو اس سے ایک طویل عرصے سے حل طلب معمہ حل ہو پائے گا کہ سورج کی بیرونی فضا جس کو کورونا کہا جاتا ہے اتنی گرم کیوں ہے۔
سورج کی سطح پر درجہ حرارت 6 ہزار ڈگری سیٹی گریڈ ہے لیکن اس کی بیرونی فضا جسے سورج گرہن کے دوران دیکھا جا سکتا ہے کا درجہ حرارت لاکھوں ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔
اس مشن کی مدد سے سائنسدانوں کو شمسی ہوا کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ ہوا چارج شدہ ذرات کے کورونا سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب یہ ذرات زمین کے مقناطیسی میدان کے ساتھ ملتے ہیں تو آسمان چمک اٹھتا ہے۔
مزید پڑھیے: زمین کو سورج کی تپش سے بچانے کے لیے دیو ہیکل چھتری خلا میں بھیجنے کی تیاریاں
لیکن اس خلائی موسم سے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً اس سے پاور گرڈز، الیکٹرانکس اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے سورج کے بارے میں سمجھنا اور اس پر ہونے والی سرگرمیوں ، موسم اور شمسی ہوا کے بارے میں جاننا زمین پر ہماری روزمرہ زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔