پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے ساتھ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں موجودہ صورتحال کی ذمہ داری مسلم لیگ ن نہیں ہے، آئندہ میٹنگ کے لیے جو وعدہ کر رکھا ہے اس پر کاربند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کا مؤقف تبدیل ہوتا رہا تو مذاکراتی عمل مثبت انداز میں آگے نہیں بڑھےگا، عرفان صدیقی
ہفتہ کے روز نجی ٹی وی انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومتی کمیٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان درمیان سیکریٹریٹ کا کردار اسپیکر قومی اسمبلی کا اسٹاف اور سیکریٹریز کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا اسپیکر جب میٹنگ میں بیٹھتے ہیں تو وہ تنہا نہیں ہوتے، تاثر یہ ہے کہ جو چیزیں ہم طے کرتے ہیں وہ ہم میں سے یا پی ٹی آئی والوں میں سے کوئی بھی آگے نہیں پہنچاتا، لیکن وہاں بیٹھا اسٹاف جس ادارے یا فریق سے متعلق بات ہوتی ہے، وہ ان تک پہنچا دیتا ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ جب پہلی میٹنگ ہوئی تو اس میں بھی ہم میں سے کسی نے کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، اس میٹنگ سے متعلق بھی اطلاع سب تک پہنچ گئی تھی، بدقسمتی سے اس میٹنگ میں پی ٹی آئی والے زیادہ مطمئن نہیں ہوئے تو ہم نے اگلی میٹنگ کے لیے جو وعدہ کر رکھا ہے اس پر کاربند ہیں، اس میں کوئی الجھن والی بات نہیں ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان پاکستان کی بہتری کے لیے مذاکرات کررہے ہیں، علی امین گنڈاپور
عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات میں ناکامی کی کوئی بات نہیں ہے، اگر نتائج اور ملاقات کے مقصد کی طرف دیکھیں تو وہ پورا ہو چکا ہے لیکن ہمارا پھر بھی کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر مقصد پورا ہو گیا ہے تو ہمیں پھر نہیں ملنا چاہیے، ہمیں پھر بھی ملنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی والے دوبارہ اس لیے ملنا چاہتے تھے کہ کیا ہم اپنے مطالبات تحریری طور پر دیں اور ہمارے مطالبات کیا ہونے چاہییں، اس کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان، حکومتی کمیٹی کے ساتھ اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی کے سینیئر رکن و وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور علی ظفر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات کر چکے ہیں۔
عرفان صدیقی نے بتایا کہ ان کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل سے واضح پیغام آ گیا ہے کہ آپ اپنے مطالبات تحریری طورپردے دیں۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی جیل مینوئل معطل کرکے عمران خان سے ملاقات چاہتی ہے، عرفان صدیقی
ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ اب جب بیٹھیں گے تو چیزیں طے کر لیں گے، دوسری میٹنگ میں یہ طے ہوا تھا کہ اب رابطہ پی ٹی آئی کی طرف سے ہوگا، اب پی ٹی آئی 13 یا 14 تاریخ کو جب بھی میٹنگ کا کہتی ہے تو ہم رابطہ کر لیں گے اس میں کوئی الجھن والی بات ہی نہیں ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اب کی بار جب بھی میٹنگ ہو گی تو اس میں یہ طریقہ کار بھی طے کیا جائے گا کہ میٹنگ میں جو بھی بات طے ہوتی ہے تو اسے آگے پہنچانے کی ذمہ داری کس کی ہو گی۔
اسٹیبلشمنٹ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی بھی فریق مذاکرات سے پیچھے ہٹا ہے، مذاکرات ٹریک پر ہیں، ان شا اللہ ایک 2 روز میں کمیٹیاں بیٹھ جائیں گی، بات وہیں سے شروع ہو گی جہاں سے آخری میٹنگ میں ختم ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ ہم پرکوئی دباؤ ہے، یا کوئی پیغام آیا ہے کہ مذاکرات بند کردیں یا ’گوسلو‘ پر چلے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان نے مذاکراتی کمیٹی کو تحریری مطالبات دینے کی اجازت دیدی
ایک اور سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم یہی چاہتے ہیں کہ ’ایکس‘ پر کوئی بیان آتا ہے تو اس کا اثر مذاکرات پر نہیں پڑنا چاہیے، ہماری طرف سے یا پی ٹی آئی کی جانب سے بھی بیان بازی ہوتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کا بیان دوسری میٹنگ کے بعد سامنے آیا ہے، ان کے بیان میں وزیراعظم کی ذات پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم کی ذات کے بارے میں جس طرح کے الفاظ عمران خان نے استعمال کیے ہیں اس طرح کے عمران خان کے بارے میں نا تراشیدہ، غیرسفارتی اورغیراخلاقی الفاظ نہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے، نہ وزیراعظم نے نہ کسی حکومتی عہدیدار نے اور نہ ہی مریم نواز نے ادا کیے ہیں۔
مزید پڑھیں:کیا عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے ساتھ پی ٹی آئی اور حکومت کے مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں؟
مذاکرات کا آغاز نہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیا نہ وزیراعظم نہ مریم نوازنے کیا ہے، مذاکرات کا آغاز پی ٹی آئی نے کیا ہے، 48 دن ہو گئے ہیں پی ٹی آئی کو مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائے ہوئے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ جو شخص مذاکرات کے لیے خود وزیراعظم سے رابطہ کرتا ہے، پھر وہ اسی وزیراعظم کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے تو یقیناً یہ مذاکرات کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔
پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگ خود کہتے ہیں کہ عمران خان کی طرف سے ایسا ’ٹویٹ‘ نہیں آنا چاہیے تھا، عمران خان نے خود رابطے کیے ہیں، مذاکرات کے محرک خود عمران خان ہیں ان کو ایسی بیان بازی نہیں کرنی چاہیے۔