وزارت خارجہ کی غلام گردشوں کا تو نہیں معلوم البتہ کچھ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ضرور کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ کیا ماضی قریب کے ’اچھے افغان طالبان‘ اب ’برے انڈیا‘ کی گود میں جا رہے ہیں؟
جب گزشتہ نومبر میں بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری برائے مغربی ایشیا جے پی سنگھ کی کابل میں وزیر دفاع ملا یعقوب سے ملاقات ہوئی تب پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ اس ملاقات سے بہت پہلے سے طالبان انتظامیہ اور نئی دلی کے درمیان برف پگھلنی شروع ہو گئی تھی۔ تب تک بھارت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈیڑھ ملین کوویڈ ویکسینز، 300 ٹن ادویات، 40 ہزار لیٹر کیڑے مار زرعی کیمیکلز، 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور سردی سے بچاؤ کے کپڑوں کی کئی کھیپیں کابل بھیج چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خوشی خوشی کون زمین چھوڑتا ہے؟
جے پی سنگھ اور ملا یعقوب کی ملاقات سے بہت پہلے نومبر سنہ 2023 میں بھارت نے دلی میں قائم افغان سفارتخانے کے عملے کے سفارتی ویزوں میں توسیع سے انکار کر دیا کیونکہ سفیر سمیت بیشتر عملہ سابق اشرف غنی حکومت کے دور سے تعینات تھا اور بھارت نے طالبان انتظامیہ کو سفارتی درجہ نہیں دیا تھا۔
بھارت اب بھی افغان انتظامیہ کو مکمل سفارتی درجہ نہیں دیتا مگر روس، چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کی طرح کابل میں بھارتی سفارت خانہ بھی بغیر کسی رسمی سفیر کی تعیناتی کے کھلا ہوا ہے۔ جبکہ ممبئی کے افغان قونصل خانے میں طالبان انتظامیہ کے نامزد کردہ اکرام الدین کامل بطور قائم مقام قونصل جنرل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مگر ہم نے ان خبروں کا شاید ہی نوٹس لیا ہو۔
البتہ گزشتہ بدھ کو دبئی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات پر ہماری تیوری پر بل پڑنا لازم تھا کیونکہ بی بی سی اور الجزیرہ نے بھی اس ملاقات کو یوں اہم پیش رفت قرار دیا کہ اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ بھارت اور طالبان کا سب سے کھلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔
اس ملاقات کی جو تفصیلات کابل اور دلی سے بیک وقت جاری ہوئیں ان کے مطابق بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کو تجارت کی پیش کش کی۔ یعنی پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک عملی متبادل پیش کیا۔ اس کے علاوہ صحت اور کھیلوں (کرکٹ) کے شعبے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ بھارت میں مقیم لگ بھگ 38 ہزار افغان پناہ گزینوں کی گھر واپسی کے لیے سہولتوں میں اضافے کی یقین دہانی کروائی۔
مزید پڑھیے: انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا کیا کریں؟
بدلے میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے وعدہ کیا کہ افغان سرزمین کو بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(یہ یقین دہانی اس لیے اہم ہے کیونکہ طالبان کی سنہ 1996 تا سنہ 2000 حکومت پر بھارت الزام لگاتا تھا کہ افغان سرزمین کشمیری علیحدگی پسندوں اور القاعدہ سے جڑے کچھ بھارتی باشندوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتی ہے)۔
سوال یہ ہے کہ وہ بھارت جس نے طالبان کی پہلی حکومت کے مخالف شمالی اتحاد کی حمایت آخری وقت تک ترک نہیں کی۔ اکتوبر 2001 میں کابل پر امریکی بموں کے سائے میں طالبان حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کرنے والے اولین ممالک میں بھارت بھی شامل تھا۔
بھارت نے دہلی یونیورسٹی کے گریجویٹ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ حکومت کی بھرپور امداد کا دروازہ کھولا۔ بعد ازاں اشرف غنی حکومت سے بھی تعاون میں کمی نہیں آئی۔ بھارت نے سنہ 2001 سے سنہ 2021 تک افغانستان میں طبی مراکز، ہائی ویز اور ڈیمز کی تعمیر پر تقریباً 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کابل میں نیا پارلیمنٹ ہاؤس بطور تحفہ تعمیر کر کے دیا۔
بھارت طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات سے بھی کبھی خوش نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں دسمبر 1999 کی قندہار ہائی جیکنگ اور سال 2008 میں کابل میں اپنے سفارتخانے پر خودکش حملے کے نتیجے میں 58 ہلاکتوں کی یاد بھی تازہ تھی۔ اگست 2021 میں کابل سے بھارتی سفارتی عملے کو جس طرح ایئر لفٹ کر کے نکالا گیا وہ بھی اس کے ذہن میں ہوگا۔
مزید پڑھیں: دراصل معذور کون ہے ؟
دوسری جانب یہی افغان طالبان اور ان سے پہلے بائیں بازو کی سوویت نواز افغان حکومتوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پاکستان کو مصیبت میں کام آنے والا بڑا بھائی قرار دیتے رہے۔ وہ 40 لاکھ پناہ گزینوں کو برداشت کرنے کا شکریہ ادا کرنا بھی کبھی نہیں بھولے۔ پاکستان نے نجیب اللہ کی جگہ مجاہدین اور برہان الدین ربانی کی جگہ ملا عمر اور اشرف غنی کی جگہ ملا ہبت اللہ کے طالبان کو اقتدار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اب بھی لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔
مگر پھر ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ یہ ’احسان مند‘ بھی ظاہر شاہ، سردار داؤد، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل کی طرح پاکستان کی نیت پر کبھی 100 فیصد اعتماد نہیں کرتے۔ ملا عمر کی پہلی حکومت کو چھوڑ کے ہر افغان حکومت نے بھارت کو سرحد نہ ملنے کے باوجود جو عزت دی اس سے پاکستان جیسا محسن ہمیشہ محروم کیوں رہا؟
پاکستان کی افغان پالیسی کا اختتام ہمیشہ بطور بلیک کامیڈی ہی کیوں ہوتا رہا اور یہ پالیسی ہمیشہ ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘ پر ہی کیوں ختم ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس بابت کوئی بھی سوال پوچھنے پر بس اتنا ہی کیوں کہتی ہے کہ ’ڈونٹ وری، ایوری تھنگ ول بی اوکے‘۔
افغانستان کے 5 اور بھی ہمسائے ہیں ( ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران، چین) ۔ ان ہمسائیوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو افغانوں کو شانت رکھتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارا ہر ’نیاز مند‘ ہر پچھلی افغان حکومت کی طرح ہمارے ہی سامنے بھارت سے آنکھ مٹکا کرتا آیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ’ڈونٹ وری ایوری تھنگ ول بھی اوکے‘۔ پھر بھی جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اپنی ذہنی جامہ تلاشی ( سول سرچنگ ) میں کیا حرج ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چین سے کچھ اقوالِ زریں بھی امپورٹ کر لیں
کوٹلیہ (چانکیا) کا نام تو سنا ہو گا۔ اور رموز مملکت پر آپ کے سینکڑوں اقوال میں ایک قول یہ بھی شامل ہے کہ ’ہمسائے سے زیادہ ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو‘۔
کم ازکم چانکیا کو ہی پڑھ لیں۔ شاید کچھ افاقہ ہو۔