ٹیرف کے نفاذ کے بعد 50 سے زائد ممالک امریکا سے تجارتی مذاکرات کے خواہاں

پیر 7 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وسیع پیمانے پر تعزیری محصولات کے نفاذ کے بعد 50 سے زائد ممالک نے تجارتی مذاکرات شروع کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس سے براہ راست رابطہ کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی اسٹاک کی قیمتوں میں تقریباً 6 ٹریلین ڈالر کی کمی اور عالمی منڈیوں کو نقصان پہنچانے والے امریکی ٹیرف نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کراتے ہوئے ممکنہ اقتصادی بدحالی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف وار: امریکا کو متعدد ممالک کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا

اس دوران، سرمایہ کاروں نے گزشتہ ہفتے وال اسٹریٹ کی فروخت کے بعد امریکی ٹریڈنگ کے کھلنے کا گھبراہٹ سے انتظار کیا، دوسرے ممالک کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر انہیں ایک اور ہنگامی ہفتے کا خدشہ تھا، ایشیائی مارکیٹ میں بھی ایک سخت اور مشکل دن کی توقع ہے۔

اتوار کی صبح ٹاک شو انٹرویوز کی ایک سیریز میں، صدر ٹرمپ کے اعلی اقتصادی مشیروں نے ٹیرف کا دفاع کرتے ہوئے انہیں عالمی تجارت میں امریکی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ایک تذویراتی اقدام قرار دیا۔

مزید پڑھیں: چین کا امریکا کی مسلط کردہ ’ٹیرف وار‘ آخر تک لڑنے کا اعلان

سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ بدھ کو ٹیرف کے اعلان کے بعد سے 50 سے زیادہ ممالک نے امریکا کے ساتھ بات چیت کا آغاز کردیا ہے، لیکن انہوں نے ان میں سے کسی ملک کا نام نہیں بتایا۔

اسکاٹ بیسنٹ نے دعویٰ کیا کہ محصولات نے صدر ٹرمپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دیا، حالانکہ امریکی معیشت پر ان کا اثر غیر یقینی ہے، انہوں نے امریکا میں غیر متوقع طور پر مضبوط ملازمت میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے کساد بازاری کے خدشات کو مسترد کر دیا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ممکنہ دورہ امریکا

صدر ٹرمپ کے وسیع پیمانے پر محصولات ہفتے کے روز سے لاگو ہوئے۔

ابتدائی 10 فیصد ’بیس لائن‘ ٹیرف امریکی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور کسٹم گوداموں پر لاگو ہوا ہے، جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد باہمی اتفاق کردہ ٹیرف کی شرحوں کے نظام کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔

امریکی جی ڈی پی میں کمی

اس کے باوجود، ماہرین اقتصادیات نے متنبہ کیا ہے کہ محصولات امریکی مجموعی گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں، جے پی مورگن کے ماہرین اقتصادیات نے اپنی ترقی کی پیش گوئی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے 1.3 فیصد اضافے سے 0.3 فیصد کمی پر محمول کیا ہے۔

غیر ملکی حکومتوں پر رعایتیں دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے مقصد کے ساتھ امریکا کی جانب سے محصولات کے نفاذ نے جوابی محصولات کو بھی جنم دیا ہے، جن میں چین کی جانب سے بھاری محصولات بھی شامل ہیں، جس سے عالمی تجارتی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: یورپی یونین بلبلا اٹھی، کیا ٹرمپ ٹیرف امریکا کے گلے پڑجائیگا؟

تائیوان، اسرائیل، بھارت اور اٹلی جیسے امریکی اتحادی پہلے ہی ٹیرف سے بچنے کے لیے امریکا کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں۔

تائیوان کے رہنما لائ چنگ ٹی نے بات چیت کی بنیاد کے طور پر صفر ٹیرف کی پیشکش کی، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی اشیا پر 17 فیصد ٹیرف سے ریلیف کا مطالبہ کیا ہے۔

دریں اثنا، امریکا ٹیرف پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں بدھ سے زیادہ “باہمی” ڈیوٹیز کے نفاذ کی توقع ہے۔

مزید پڑھیں:امریکا کی ریاست بن جائیں، ٹیرف ختم کردیں گے، ٹرمپ کی کینیڈا کو پیشکش

ناقدین نے محصولات کے تعین کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر جب وہ کچھ دور دراز، غیر آباد علاقوں میں لاگو کیے گئے تھے۔

کامرس سیکریٹری ہاورڈ لوٹنک نے حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا مقصد ممالک کو ٹیرف کی خامیوں کے ساتھ کھیلنے سے روکنا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp