اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ چولستان سے نکالی جانے والی نہروں پر اگر سندھ کو اعتراض ہے تو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے پنجاب اور سندھ کے ارکان اسمبلی کو مل کر حل کرنا چاہیے۔ پانی کی تقسیم کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں بلکہ حساب کتاب کا معاملہ ہے کہ کس کو کتنا پانی درکار ہے۔
سیاسی اور عسکری لوگوں میں رسہ کشی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں حکومتیں الٹ پُلٹ جاتی ہیں۔ میں اس بات کا داعی ہوں کہ 1973 کے آئین کے مطابق عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے پاس طاقت ہونی چاہیے، اسپیکر پنجاب اسمبلی کا لوکل گورنمنٹ پر تبصرہ@pmln_org pic.twitter.com/OWKUU6Imra
— WE News (@WENewsPk) April 16, 2025
پنجاب اسمبلی آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر کا کہنا تھا کہ اگر ہم آپس میں بیٹھ کر بات کریں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو حل نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مختلف منصوبوں کے لیے کنٹریکٹ کرتی ہے اور اب کئی پراجیکٹس بین الاقوامی اداروں اور طاقتوں کے تحت بھی چل رہے ہیں۔
ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ بعض کنٹریکٹ ملازمین خود کو حکومت کے مستقل ملازم سمجھ بیٹھے ہیں، حکومت ان کے لیے بہتر اور واضح نظام بنانے کی خواہشمند ہے۔ مذاکرات کے اختیارات حکومت کے پاس ہیں اور وہی اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ ہم نے تو کل صرف ارکان اسمبلی کو ان کا موقف سننے کے لئے بھیجا تھا، جو بھی بات انہوں نے کی، اسے امانت کے طور پر حکومت تک پہنچائیں گے۔
مزید پڑھیں: دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے معاملے پر غلط فہمیاں دور کی جائیں گی، اسحاق ڈار
اسپیکر نے کہا کہ فنچ کی رپورٹ نے ملک کی معیشت سے متعلق مثبت اشاریے دیے ہیں جبکہ ایک سیاسی جماعت ایسی صورتحال پیدا کر رہی ہے کہ زرمبادلہ نہ آئے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر بڑھ چکے ہیں۔
انہوں نے مقامی حکومتوں کے بل پر بھی رائے دی اور کہا کہ اگر نئے بل میں عوامی نمائندوں کے اختیارات ڈی سی کو دے دیے گئے تو اختیارات کی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی۔ یہ جنگ 1973 سے جاری ہے کہ کس ادارے کا کتنا اختیار ہے، اور اسی بحث میں کئی حکومتیں بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔
ملک محمد احمد خان نے کہا کہ وہ ہمیشہ اس بات کے حق میں رہے ہیں کہ عوامی نمائندوں کو ان کا اصل حق اور اختیار دیا جانا چاہیے۔ میں تو اکیلا یہ آواز بلند کرتا آیا ہوں، لیکن اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ’اس کو پکڑو، اس کو چھوڑو‘ کی سیاست ختم کرکے ملک کے معاملات کی بہتری پر توجہ دی جائے۔