بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل اور پاکستان کے ساتھ سرحد بند کرنے کا اعلان

بدھ 23 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرتے ہوئے اٹاری واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: پہلگام حملہ: مودی سرکار کی مہم ناکام، بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب!

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیرصدارت کابینہ اجلاس کے بعد ترجمان وزارت خارجہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تمام پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کردیے ہیں اور تمام پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑے کا حکم دے دیا ہے۔

بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری پریس کانفرنس میں آبی معاہدے اور سرحد کی بندش کے حوالے سے اعلان کرتے ہوئے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان ہائی کمیشن کو 7 روز میں بھارت چھوڑنا ہوگا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ بھارت نے پاکستان کے ایئرفورس و نیوی کے اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے دیا ہے جبکہ بھارتی دفاعی اتاشی کو بھی پاکستان سے واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

1960 وزارت خارجہ ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ آبی معاہدہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک کہ پاکستان قابل اعتبار اور اٹل طور پر سرحد پار دہشتگردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔

ترجمان نے کہا کہ انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ اٹاری کو فوری طور پر بند کر دیا جائے گا اور جو لوگ درست توثیق کے ساتھ پار کر چکے ہیں وہ یکم مئی 2025 سے پہلے اس راستے سے واپس آ سکتے ہیں۔ ترجمان نے پاکستانیوں کو سارک کے تحت دیے جانے والے ویزے بھی بند کرنے کا بھی اعلان کردیا۔

مزید پڑھیے: پہلگام حملہ: پاکستان کیخلاف بھارتی میڈیا کا شیطانی پروپیگنڈا بے نقاب

پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم (SVES) ویزوں کے تحت ہندوستان جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے کسی بھی SVES ویزے کو منسوخ سمجھا جاتا ہے۔ ایس وی ای ایس ویزا کے تحت اس وقت ہندوستان میں موجود کسی بھی پاکستانی کے پاس ملک چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹے ہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی/فوجی، بحری اور فضائی مشیروں کو پرسونا نان گریٹا قرار دے گیا گیا ہے اور ان کے پاس ہندوستان چھوڑنے کے لیے ایک ہفتہ ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی/ بحریہ/ فضائی مشیروں کو واپس بلا لے گا۔ متعلقہ ہائی کمیشنز میں یہ اسامیاں کالعدم سمجھی جائیں گی۔ دونوں ہائی کمیشنز سے سروس ایڈوائزرز کے 5 معاون عملے کو بھی واپس لے لیا جائے گا۔

ترجمان نے اعلان کیا کہ ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کو یکم مئی 2025 تک موجودہ 55 سے کم کرکے 30 تک لایا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اکثریتی علاقے اور مشہور سیاحتی مقام پر فائرنگ کے واقعے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس حملے کا واضح اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سنہ 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے

اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔

معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پہلگام حملہ بھارتی ایجنسیوں کی کارروائی ہے، سید صلاح الدین احمد

مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا۔ انڈیا کو ان دریاؤں پر پروجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔

قومی سلامتی کونسل اجلاس طلب

دریں اثنا اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے جمعرات کو قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا۔

کیا بھارت سندھ طاس معاہدہ اپنے طور پر معطل یا ختم کرسکتا ہے؟

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی بلاشبہ بھارت کے جارحیت اور انتہا پسندی کی نشاندہی کرتی ہے مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا۔

سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت یافتہ معاہدہ ہے اگر بھارت یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل یا منسوخ کرتا ہے تو پھر ان تمام معاہدوں پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے جو دیگر ممالک کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک بھی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ منسوخ یا معطل کرسکتا ہے؟ معاہدے کے تحت  بھارت از خود  اس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوئی قانونی اہلیت نہیں رکھتا۔

معاہدے کا آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے کہ جب بھارت  اور پاکستان دونوں تحریری طور پر راضی ہوں۔

دوسرے لفظوں میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے لیے دونوں ریاستوں کی طرف سے ایک برطرفی کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا اور پھر دونوں کی طرف سے اس کی توثیق کرنی ہوگی۔ اس معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معینہ مدت کا معاہدہ ہے اور اس کا مقصد کبھی بھی وقت کے ساتھ مخصوص یا واقعہ سے متعلق نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ہی سندھ طاس معاہدے کے یکساں طور پر پابند ہیں۔ کسی معاہدے سے ہٹنا دراصل اس کی خلاف ورزی ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر تنسیخ، معطلی یا واپس لینے وغیرہ جیسے جواز پیش کرکے معاہدے کی پیروی کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے بھارت منسوخ یا دستبرداری کہے گا، پاکستان اسے خلاف ورزی سے تعبیر کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ: پاکستان کا سندھ طاس معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ

سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہوگا اگر بھارت پاکستانی پانی کو نیچے کی طرف روکتا ہے اور کیا یہ چین کے لیے اوپر کی طرف کوئی مثال قائم کر سکتا ہے؟ اگر بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی آبی قانون کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔

جنرل ایوب خان اور جواہر لال نہرو معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق خواہ سندھ طاس جیسا معاہدہ ہو یا نہ ہو کوئی بھی بالائی ملک (جیسا کہ بھارت) کسی (ٹیل اینڈ والے) زیریں ملک (جیسے کہ پاکستان) کے پانی کو روکنے کا حق نہیں رکھتا

اگر بھارت ایسا قدم اٹھاتا ہے تو یہ علاقائی سطح پر ایک نیا طرز عمل قائم کرے گا جو بین الاقوامی قانون میں ایک مثال کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا فائدہ چین اٹھا سکتا ہے جو دریائے برہمپترا کے پانی کو روکنے کے لیے اسی بھارتی طرز عمل کو بنیاد بنا سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا یہ قدم نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ چین جیسی طاقتیں اس صورتحال کو بغور دیکھ رہی ہوں گی۔

سندھ طاس معاہدہ اپنی نوعیت میں ایک مضبوط اور دیرپا معاہدہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی شق شامل نہیں بلکہ اس میں ترمیم صرف دونوں فریقین کی باہمی رضامندی اور باقاعدہ توثیق شدہ معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ۔

مزید پڑھیے: پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے

بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کرنا نہ صرف اس کے طے شدہ طریقہ کار جیسے مستقل انڈس کمیشن، غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی عدالت کے ذریعے تنازع کے حل کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ معاہدے کی روح کے بھی منافی ہے۔

یہ معاہدہ ماضی میں کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا ہے جو اس کی قانونی اور اخلاقی طاقت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔

بھارتی اقدامات کو گیڈر بھبکیاں قرار

دفاعی اور خارجہ امور کے ماہرین نے بھارت کی جانب سے آبی معاہدے اور سرحد بند کرنے سمیت دیگر اقدامات کو گیڈر بھکیاں قرار دے دیا۔

ماہرین خارجہ امور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان عالمی معاہدات کے منافی اقدام ہے۔

خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کوئئ ملک ایسے اقدامات نہیں لے سکتا۔

ماہرین نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ نہ یک طرفہ طور پر ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا بھارت کے پاس کوئی اختیار ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق کشمیر ریزسٹنس نامی ایک غیر معروف گروپ نے مبینہ طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

گروپ کی جانب سے جاری پیغام میں اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد بااہر کے لوگوں کو آباد کیا گیا ہے جس سے علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل ہو رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp