وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نئے مالی سال 26-2025 کا 17 ہزار 573 ارب روپے سے زائد حجم کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس میں گریڈ ایک سے 22 تک کے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پینشن میں 7 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 26-2025 کے اہم نکات
- بجٹ کا کل حجم: 17573 ارب روپے
- بجٹ خسارہ: 6501 ارب روپے
- وفاقی آمدن: 11072 ارب روپے
- ریونیو ہدف: 19298 ارب روپے
- نان ٹیکس ریونیو: 5167 ارب روپے
- ٹیکس وصولی: 14131 ارب روپے
- سود ادائیگی کے لیے مختص رقم: 8207 ارب روپے
- اخراجات کے لیے مختص رقم: 971 ارب روپے
- سبسیڈیز کے لیے مختص رقم: 1186 ارب روپے
- ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص رقم: 1000 ارب روپے
- جاری اخراجات کا تخمینہ: 16286 ارب روپے
- دفاعی بجٹ کے لیے مختص رقم: 2550 ارب روپے
جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کے لیے140 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی حکومت کے گریڈ ایک سے 22 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ معذور ملازمین کے کنوینس الاؤنس کو 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار کر دیا جائے گا۔
بجٹ میں سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ، ضم شدہ اضلاع اور آزاد جموں و کشمیر کے لیے گرانٹس کی مد میں 1928 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
وفاقی بجٹ 2025-26 میں ضم شدہ اضلاع (فاٹا، پاٹا) کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ ان علاقوں میں پہلے مرحلے میں 10 فیصد کی شرح سے سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الائونس دینے کی تجویز ہے جبکہ مسلح افواج کے افسران اور سپاہیوں کے لیے سپیشل ریلیف الائونس دینے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر
بجٹ اجلاس شروع ہونے سے قبل تلاوت کے دوران اپوزیشن ارکان ایک ساتھ ایوان میں آئے۔ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے ارکان نے بانی چیئرمین کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ انہوں نے ’گولی کیوں چلائی، شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، خان کو رہا کرو‘ کے نعروں پر مشتمل کتبے بھی اٹھا رکھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردیا، جی ڈی پی میں اضافہ ریکارڈ
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر شروع کی تو پی ٹی آئی ارکان نے شور مچاکر ڈیسک بجانا شروع کر دیے جس کے باعث ایوان میں بجٹ تقریر کا ایک لفظ بھی سننا دشوار ہوگیا۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پوائنٹ آف آرڈر پر گفتگو کا موقع دینے کا مطالبہ دیا۔
Budget Speech 2025-26 (Final 1) (PDF) by khowarichitral on Scribd
وفاقی وزیر خزانہ نے تقریر کے آغاز میں کہا کہ معزز ایوان میں بجٹ 2025-26 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، یہ مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کی قیادت خصوصا نوازشریف، بلاول بھٹوزرداری، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد مگسی کا رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیے: وفاقی بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی 4 تجاویز تیار
انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی، جن میں جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول شامل ہے، افراط زر میں نمایاں کمی 4.7 فیصد، پچھلے سال کے 1.7 ارب ڈالر خسارے کے مقابلے میں اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ 1.5 ارب ڈالر متوقع ہے۔
انہوں ںے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، ہم پر امید ہیں کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے، موجودہ سال کے اختتام تک یہ ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سستی بجلی کی منصوبہ بندی کی اور 9 ہزار مہنگے بجلی گھروں کو ترک کیا گیا۔ ہم نے تیل اور گیس کے شعبے میں اصلاحات کیں۔ ریکوڈک منصوبے سے 7 ارب ڈالرز کا ٹیکس متوقع ہے۔
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ میں کمی
وزیر خزانہ نے کہا کہ 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے صرف 1 فیصد کر دی گئی ہے۔ 12 لاکھ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس کی رقم کو 30,000 سے کم کر کے 6,000 کر دینے کی تجویز ہے۔ جو لوگ 22 لاکھ روپے تک تنخواہ لیتے ہیں اُن کے لیے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
اسی طرح زیادہ تنخواہیں حاصل کرنے والوں کے لیے بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز دی جارہی ہے۔ 22 لاکھ روپے سے 32 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔‘
تنخواہ داروں کے لیے خوشخبری، حکومت نے بڑے ریلیف کا اعلان کردیا
وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کیا ہے۔ سالانہ6 سے 12 لاکھ روپے تک کی تنخواہ لینے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔ سالانہ 12 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ٹیکس کی رقم 30 ہزار روپے سے کم کرکے 6 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر، پاکستان نے بھارت کے 4 رافیل جہاز گرائے، وزیراعظم شہباز شریف
22 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کم از کم ٹیکس 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔22 سے 32 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کرکے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے 800 کالمز والا ٹیکس ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کردیا جائے گا جس میں صرف 7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی۔ یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن خاص طور پر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباری افراد کے لیے متعارف کرایا جارہا ہے جس کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
پاکستان کی معیشت میں بہتری کا عالمی طور پر اعتراف
وزیرخزانہ نے بتایا کہ ڈبلیو سی کے مطابق کاروباری اداروں کے سربراہان کا معیشت میں بہتری پر اعتماد 49 فیصد سے بڑھ کر 83 فیصد تک پہنچ چکا ہے، اسی اعتماد کی بازگشت اورسیز چیمبرز کے تحت پاکستان میں کاروبار کرنے والے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی سنی جاسکتی ہے جہاں بزنس کانفڈینس انڈیکس میں تاریخی بہتری آئی ہے۔
ملکی دفاع حکومت کی اہم ترین ترجیح ہے۔ اس قومی فرض کے لیے 2550 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، وزیر خزانہ pic.twitter.com/KJOAp3PJNR
— WE News (@WENewsPk) June 10, 2025
انہوں نے کہا کہ گیلپ کےمطابق بھی پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور ہاؤس ہولڈ فنانشل آؤٹ لک میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، آئی پی ایس او ایس سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر منفی بی کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے، موڈیز نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایف سی نے نہ صرف پاکستانی معیشت کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کے لیے خطیر فنڈنگ کا اعلان بھی کیا ہے۔
ٹیکس اصلاحات
وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے مختلف سیکٹرز میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میں ان کامیابیوں اور کچھ اہم اصلاحات کی تفصیل ایوان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی۔ ٹیکس تو جی ڈی پی کی شرح 10.0 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی۔ مزید برآں، ایف بی آر پاکستان میں ٹیکس گیپ کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول تھی۔ اس خلا کو پُر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح پر پہنچا کر پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔
Finance Bill by khowarichitral on Scribd
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ایف بی آر نے اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے۔ ایف بی آر کو ٹرانسفارم کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔ اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایف بی آر ٹرانسفارمیشن پلان کا آغاز کیا گیا۔ یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیرا عظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی، اس منصوبے کی بنیاد تین ستونوں پر ہے؛ عوام، ترقی اور ٹیکنالوجی۔
پچھلے بجٹ میں عام آدمی اور تنخواہ دار طبقے نے جتنا بوجھ اُٹھایا ہے، اس کے مقابلے میں اشرافیہ نے کتنا بوجھ اُٹھایا؟ اس سوال کا جواب مجھے سمیت اشرافیہ کو دینا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف pic.twitter.com/PFsbEARos9
— WE News (@WENewsPk) June 10, 2025
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل اصلاحات ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع ڈیجیٹل ہم آہنگی کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں (ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ) کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے؟
محمد اورنگزیب نے کہا کہ بزنس ٹو بزنس لین دین کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ملک گیر (ای انوائسنگ) کا اجرا سیلز اور انکم کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی آڈٹ سلیکشن سسٹم کی شمولیت اشیاء کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے (ای-وے بلنگ) کسٹمز میں ملی بھگت کا خاتمہ کرنے کے لیے فیس لیس آڈٹ نظام کا قیام
افسران کے لیے ڈیجیٹل ورک فلو اور بروقت ریگولیٹری انتباہات ایک نیا سینٹرل کنٹرول یونٹ جو تمام ڈیٹا کی مرکزیت فراہم کرے جدید ٹیکنالوجی لانے کے لیے مینڈیٹ کے ساتھ (پیرل بورڈ) کی تشکیل نو ہوچکی ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جب کہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیے: تنخواہ داروں کے لیے خوشخبری، حکومت نے بڑے ریلیف کا اعلان کردیا
انہوں نے کہا کہ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے تربیت دی جارہی ہے، پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو ریوارڈز محض سینیارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جب کہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔
صحت کا شعبہ
وزیرخزانہ نے کہا کہ مالی سال 26ـ2025 کے لیے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔ ان منصوبوں کے تکمیل سے بیماریوں پر قابو پانے، صحت کی دیکھ بھال کو جدید بنانے، اور تمام شہریوں کوعلاج معالجے تک یکساں رسائی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
ان منصوبوں میں نمایاں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر، اسلام آباد کے لیے 4 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس رقم کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں ایک فلیگ شپ ٹرشری کیئر اور ٹیچنگ فیسیلیٹی کا قیام ہے۔ صحت کے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم پروگرام کے تحت ہیپا ٹائٹس سی کے خاتمے کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے ملک گیر سکریننگ اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح متعدی امراض کی بڑھتی ہوئی لہر سے نمٹنے کے لیے شوگر کی روک تھام اور کنٹرول کے پروگرام کو 80 کروڑ فراہم کیے جائیں گے تاکہ صحت عامہ کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے 1.7 ارب روپے اور ضروری آلات کی خریداری کے لیے 90 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ پمز اسلام آباد میں ایک جدید ترین توسیعی سہولت اور کارڈ یک کئیر کے قیام اورسٹروک انٹروینشن سینٹر کے لیے 90 کروڑ مختص کیے جائیں گے تاکہ ہنگامی حالات میں اقدامات ور دل اور فالج کے مریضوں کے بچاؤ کو بہتر بنایا جا سکے۔
آن لائن کاروبار اور کوریئر سروس والوں کے لیے بری خبر
وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں میں کہا ہے کہ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہوگیا ہے جس سے دستاویزی کاروبار کرنے والے ری ٹیلرز کو نقصان ہورہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ وہ اب ای کامرس پلیٹ فارمز، اور کوریئر سروس مہیا کرنے والے، ڈیجیٹل طور پر منگوائی جانے والی اشیا اور خدمات پر ٹیکس کاٹیں گے۔
وفاقی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ معذور ملازمین کے کنوینس الاؤنس کو 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار کر دیا جائے گا۔ وزیر خزانہ pic.twitter.com/JGSN2trghM
— WE News (@WENewsPk) June 10, 2025
اس اقدام سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت محصولات میں اپنا حصہ شامل کرے۔ آن لائن مارکیٹ پلیسز، کوریئر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے اداروں پر لازم ہوگا کہ وہ ہر ماہ اپنا ٹرانزیکشن ڈیٹا اور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔‘
پاؤر سیکٹر میں اصلاحات
ان کا کہنا تھا کہ ’ ہمیں احساس ہے کہ مستقل بنیادوں پر بہتری لانے کے لیے پاور سیکٹر میں گہری اور بنیادی اصلاحات لانا ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کی ترسیل کے ادارے (این ٹی ڈی سی) کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ہے اور اسے تین نئی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ کمپنیاں مستقبل کے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کی ذمے دار ہوں گی تاکہ بجلی کے ترسیلی نظام میں رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔ ان اداروں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام پروفیشنل بورڈز کے سپرد ہے، ہم نے ان بورڈز میں سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے۔ پروفیشنل بورڈز کے آنے سے ان کمپنیوں نے صرف 9 مہینوں میں اپنے نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے۔ انشاء اللہ ہمارا عزم ہے کہ اگلے 5 سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے شعبے میں مقابلہ جاتی اور آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، اور اگلے 3 ماہ میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے اصولوں پر مبنی بلڈنگ کوڈز منظور کیے گئے ہیں، اور وفاقی و صوبائی اداروں کو ان ضوابط پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں بننے والی تمام تعمیرات توانائی کے اعتبار سے مؤثر اور فعال ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے، اور 9000 میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا، ترک کر دیا ہے۔
ٹیرف اصلاحات
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق درج ذیل ٹیرف اصلاحات کو نیشنل ٹیرف پالیسی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔
- 4 سال میں کسٹمز ڈیوٹی کا خاتمہ
- 5 سال میں ریگولیٹری ڈیوٹیز (RDs) کا خاتمہ۔
- کسٹمز ایکٹ 1971 کے 5 ویں شیڈول کا 5 سالوں میں اختتام
- کل 4 کسٹمز ڈیوٹی سلیبز (0) فیصد، 5 فیصد، 10 فیصد، اور 15 فیصد ) اور
- زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 15 فیصد
وزیرخزانہ نے کہا کہ ان ٹیرف اصلاحات کو مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا، تا کہ کاروبار کسی خلل کے بغیر اس تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکیں اور ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔ معیشت کے تقریباً تمام شعبے ان اصلاحات سے مستفید ہوں گے جن میں فارماسیوٹیکل، آئی ٹی اور ٹیلی کام، ٹیکسٹائل، انجینئر نگ وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بنک کے مطابق ان اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد پاکستان کے اوسط ٹیرف، خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے اور ہم ویت نام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہماری معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانے سے ہماری معیشت کے تناسب سے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے۔ آج سے دو سال قبل ہماری ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی ریشو 74 فیصد تھی جو کہ اب 70 فیصد سے بھی نیچے آگئی ہے جسے ہم آگے چل کر مزید کم کریں گے، اس ضمن میں ہمیں اہم کامیابیاں ملی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وزیرِ خزانہ pic.twitter.com/aEd4TYTmEL
— WE News (@WENewsPk) June 10, 2025
پی آئی اے کی نجکاری
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عوامی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے ، مالی بوجھ کو کم کرنے، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایک جدید اور متحرک نجکاری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ حکمت عملی غیر ضروری سرکاری اداروں کی شفاف اور مؤثر نجکاری پر مرکوز ہے تاکہ مختلف شعبوں، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت، کارکردگی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 26-2025 میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم پی آئی اے اور روز ویلٹ ہوٹل جیسی اہم ٹرانزیکشنز مکمل کریں، اور ڈسکوز اور جنکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے لیے پالیسی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھائیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نجکاری کو صرف ایک مالی اقدام نہیں بلکہ پاکستان کی سرمایہ منڈیوں کو وسعت اور گہرائی دینے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، منتظم پبلک لسٹنگ اور آفرز کے ذریعے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اثاثوں کو اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا جائے، تاکہ مارکیٹ میں شفافیت بڑھے، سرمایہ کاروں کی شرکت ممکن ہو اور عوام کی معیشت میں شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔
رائٹ سائزنگ کی پالیسی
ان کا کہنا تھا کہ اب تک کابینہ نے 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جو اب عملدر آمد کے مرحلے میں ہیں، 6 ڈویژنز کو ضم کر کے 3 بنا دی گئی ہیں، 45 کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹائز ضم یا بند کیا جارہا ہے جب کہ تقریباً 40 ہزار خالی آسامیوں کوختم کر دیا گیا ہے، اگلی 10 وزارتوں کے لیے رائٹ سائزنگ کی سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جب کہ مزید 8 وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں۔
پینشن اصلاحات
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پینشن، ریٹائرڈ ملازمین کا بنیادی حق ہے، پچھلی کچھ دہائیوں میں پینشن اسکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا، پنشن اسکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن اسکیم میں اصلاحات کی ہیں، جیسے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی، پینشن اضافہ (کنزیومر پرائس انڈیکس) سے منسلک
شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ میں ترامیم
وزیرخزانہ نے بتایا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت انفوسمنٹ کے شعبے میں درج ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں۔
یہ تجویز ہے کہ وہ اشیا جن پر Origianl Tax Stamps یا Barcodes موجود نہ ہوں، انہیں Track & Trace System کے تحت فوری طور پر بحق سرکار ضبط کیا جائے گا۔
وفاقی بجٹ 2025-26: ضم شدہ اضلاع(سابقہ فاٹا) کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم!
پہلے مرحلے میں 10 فیصد کی شرح سے سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا. وزیر خزانہ pic.twitter.com/durK87aJOX— WE News (@WENewsPk) June 10, 2025
انہوں نے کہا کہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ایف بی آر کی محدود موجودگی کے پیش نظر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت انفورسمنٹ کے اختیارات مخصوص صوبائی افسران کو با قاعدہ ایس او پیز کے تحت تفویض کیے جا رہے ہیں، تاکہ بالخصوص بغیر ڈیوٹی ادا شدہ تمباکو کی اسمگلنگ پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔
تعمیرات اور کم لاگت والے گھروں کی تعمیر
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں تعمیرات کے شعبہ کا بہت اہم حصہ ہے۔ ہمارے بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار تعمیرات کے شعبے پر منحصر ہے۔ تاہم بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے سی شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد اور 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں ، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی 7 فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور مورٹیج کی حوصلہ افزائی کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور 20000 تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت مورٹیج فنانسنگ کو پروموٹ کرے گی اور اس سلسلے میں ایک جامع نظام متعارف کرایا جائے گا، اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ گھروں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
کاربن لیوی
فوسل فیول کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگرام کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے، یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 2025-26 کے لیے پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے، جو مالی سال 27-2026 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ فرنس پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں پر سرچارج کی ادائیگی
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ پر نا قابل برداشت گردشی قرضوں کا بوجھ ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر2,393 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس گردشی قرضے پر KIBOR کے علاوہ 2 فیصد سے 5.4 فیصد تک مالیاتی چارجز عائد ہوتے ہیں، اور مالی سال 2025 میں اس کی متوقع لاگت 454 ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ موجودہ مہنگے قرضوں کی ری فنانسنگ سستے اور شریعت کے مطابق بینک فنانسنگ کے ذریعے کی جائے۔ اس طرح موجودہ قرض کی ادائیگی کے لئے ڈیبٹ سروسنگ سرچارج کو صرف منافع یا مارک اپ کے لیے نہیں بلکہ اصل قرض کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیپرا ایکٹ میں ایک ترمیم تجویز کی جارہی ہے جس سے وفاقی حکومت کو ڈی ایس ایس پر 10 فیصد سرچارج ادا کرنے کی پابندی کو کیس ٹو کیس بنیاد پر مخصوص مدت اور مقصد کے لیے بڑھانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
بجٹ تقریر کے آغاز میں پی ٹی آئی ارکان احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کی نشست کی طرف بڑھے۔ تاہم اس دوران حکومتی ارکان اپوزیشن گیلری اور وزیراعظم کی نشست کے درمیان کھڑے ہو گئے۔
قائد حزب اختلاف عمر ایوب کی بجٹ تقریر کے دوران بجٹ کی کاپی سے ڈیسک بجا کر احتجاج۔ pic.twitter.com/OM8FWQDLsB
— WE News (@WENewsPk) June 10, 2025
ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، قوم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول پر مرکوز ہے، ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، اسے جذبے اور خلوص کے ساتھ ہم نے اپنی معیشت کو مستحکم اور عوامی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔
اپنی تقریر کے آخر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی اصلاحات صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ قومی ہم آہنگی، اتفاق رائے اور مسلسل محنت کا تقاضا کرتی ہیں۔ انہوں نے ایوان اور خاص طور پر حزب اختلاف سے گزارش کی کہ وہ اس قومی مقصد میں ان کا ساتھ دیں اور آئیں ہم سب ملکر پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں ایک ایسا مستقبل جو شفافیت، شمولیت اور پائیدار ترقی پر استوار ہو۔
انہوں نے بجٹ تقریر کا اختتام اس دعا کے ساتھ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور پاکستان کو ترقی ، امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔
بجٹ پیش ہونے سے کچھ دیر قبل وفاقی کابینہ نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی منظوری دے دی تھی۔ کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 7 فیصد اضافے کی تجویز مسترد کردی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ نے 10 فیصد اضافے کی منظوری دے دی تھی۔
بعدازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس 13 جون تک ملتوی کردیا گیا۔