افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں امریکا میں 86 سال کی سزا پانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اسحاق ڈار کے 25 جولائی کے بیان نے سوشل میڈیا پر کافی تنقید کو دعوت دی اور یہاں تک کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے بھی اسحاق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ڈیو پراسیس کا مطلب صرف کسی کو عدالت میں پیش کرنا نہیں بلکہ عافیہ صدیقی کے کیس میں اُن کے 10 حقوق پامال کیے گئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 25 جولائی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس میں وزیراعظم نے اُنہیں یقین دلایا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار نے عافیہ صدیقی کیس سے متعلق اپنے بیان کی وضاحت کردی
25 جولائی کو ہی پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اٹلانٹک کونسل واشنگٹن میں ایک انٹرویو کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا کے لیے قانونی طریقہ کار کی مثال دیتے ہوئے عافیہ صدیقی کیس کی مثال دی جس پر شدید تنقید کی گئی۔
26 جولائی کو اسحاق ڈار نے اس سلسلے میں ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ میرے اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک واشنگٹن میں عمران خان کے کیس کے بارے سوال کے جواب میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ن لیگ کی حکومتوں کے ادوار میں ہم ہمیشہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے تمام تر سفارتی اور عدالتی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رپیں گے جب تک کہ رہائی کا معاملہ حل نہ ہو جائے۔
انہوں نے کہاکہ ہر ملک کے عدالتی و قانونی طریقہ کار ہوتے ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے چاہے وہ پاکستان ہو یا امریکا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے پر ہماری حکومت کا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے۔
27 جولائی کو اُنہوں نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں کوئی یہ نہ سکھائے کہ ہم نے عافیہ صدیقی کے لیے کیا کِیا۔ ہم 2015 سے مسلسل اُن کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں نواز شریف نے اُس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما سے اوول آفس میں ملاقات کے دوران عافیہ صدیقی کو پاکستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بار بھی میں نے صدر جو بائیڈن کو باقاعدہ دستخط شدہ معافی کی درخواست بھیجی۔
اسحاق ڈار کے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے کہاکہ عافیہ صدیقی کیس کو ڈیو پراسیس آف لا کہنا غلط ہے کیونکہ اِس کیس میں کوئی شواہد موجود نہیں تھے اور جھوٹ بولا گیا تھا۔
لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں کب کیا ہوا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بات کی جائے تو وہ 02 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور اُنہوں نے امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
2003 میں وہ پاکستان آئیں اور اس دوران 2003 سے 2008 کے درمیان وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاپتا رہیں۔ 2008 میں وہ غزنی افغانستان میں دوبارہ سامنے آئیں اور گرفتار ہوئیں۔ ان کے بارے میں ایک دعوٰی یہ سامنے آتا ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حراست میں بطور گھوسٹ ڈیٹینی رہیں۔
اُن کے بارے میں ایک دعوٰی یہ کیا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے رُکن خالد شیخ محمد کی بیوی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی گرفتاری
جولائی 2008 غزنی میں پولیس نے گشت کے دوران عافیہ صدیقی کو گرفتار کیا۔ اُنہیں اُس وقت کی افغان پولیس نے گرفتار کیا تھا اور بعد میں امریکی ایف بی آئی نے اُن کی تفتیش کی۔ مبیّنہ طور پر گرفتاری کے وقت ان کے پاس دھماکا خیز مواد بنانے کے فارمولے موجود تھے۔ مبیّنہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ایف بی آئی سے دوران تفتیشں اُنہوں نے ایک خاتون اہلکار سے بندوق چھینی اور گولی چلا دی جس سے وہ ہلاک ہو گئی، جبکہ وہاں موجود ایک میل اہلکار نے اُن پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہوگئیں۔ اس کے بعد اُنہیں امریکا منتقل کردیا گیا۔
امریکہ میں عدالتی کاروائی
2008 میں نیویارک کی ساؤدرن ڈسٹرکٹ میں اُن کے خلاف رسمی طور پر مقدمہ درج کیا گیا۔ 13 جنوری سے 03 فروری 2010 تک اُن کا جج و جیوری ٹرائل ہوا۔ جبکہ 23 ستمبر 2010 کو امریکی اہلکاروں پر حملے کے الزام میں عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی درخواست تاخیر کا شکار کیوں ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز کو بتایا کہ نیویارک کی جس عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنائی تھی، اُسی عدالت میں ہم نے ڈاکٹر عافیہ کے رہائی کے لیے درخواست پہلے جولائی میں دائر کرنا تھی لیکن حکومت کی وجہ سے اُس میں تاخیر ہوئی اور اب ممکن ہے ہم اُسے اگست یا ستمبر میں دائر کریں۔
انہوں نے کہاکہ یہ درخواست انسانی بنیادوں پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ہوگی اور اِس میں امریکی وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ کی جانب سے اُن 10 حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کیا جائے گا جو اُنہوں نے لکھے ہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ اِسلام آباد ہائیکورٹ میں ہم نے درخواست دائر کی تھی کہ وفاقی حکومت امریکی عدالت میں اپنا امائیکس بریف داخل کرے، امائیکس بریف کوئی ایسا فرد یا ادارہ ہوتا ہے جو امریکی قانون کے مطابق کسی بھی عدالت میں فریق بن کر اپنی رائے پیش کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت امریکی عدالتوں میں تاثر یہ ہے کہ پاکستان حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کو اس لیے امریکا کے حوالے کیا کہ وہ ملزم تھیں۔ اب پاکستان حکومت جب امریکی عدالت میں اپنا امائیکس بریف داخل کرے گی تو یہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ممد و معاون ثابت ہوگا۔
عمران شفیق نے بتایا کہ اس سال ایک سماعت پر اٹارنی جنرل نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ وفاقی حکومت کو امریکی عدالت میں امائیکس بریف داخل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بعد کہا گیا کہ وفاقی حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ اس پر جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت سے وجوہات بتانے کو کہا تو جب وجوہات نہیں بتائی گئیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے تھے۔
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ اب وفاقی حکومت اس مقدمے میں تعاون کر رہی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ پاکستانی کی کونسی عدالتوں میں زیر التوا رہا؟
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کا کیس زیادہ تر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلا جبکہ اُن کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے کچھ درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے 21 جولائی کو وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی صحت، وطن واپسی اور رہائی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی۔
17 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں ترمیم کی اجازت دے دی جس کو وفاقی حکومت نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کیس سے متعلق جو کر سکتے تھے کر چکے ہیں، اور اب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو درخواست میں ترمیم کی اجازت دینا اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا عافیہ صدیقی کیس میں سپریم کورٹ سے رجوع
اس سال 07 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رُکنی بینچ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے افغان شہری شریف اللہ کی امریکا حوالگی بارے سوالات اُٹھا دیے کہ امریکا کے ساتھ ملزمان کی حوالگی سے متعلق باقاعدہ معاہدے کی عدم موجودگی میں شریف اللہ کو کیسے امریکا کے حوالے کیا گیا۔