نئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد چیف سیکریٹری کو ایسے افسران کی فہرست تیار کرنے کی ہدایت کی ہے کہ جو حکومتی پالیسی کے برخلاف صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے یہ ہدایت چیف سیکریٹری اور انتظامی افسران کے ساتھ اپنے پہلے اجلاس میں دی۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس بار صوبے میں حقیقی تبدیلی لائی جائے گی، انتظامی افسران کو حکومتی پالیسیوں کے مطابق کام کرنا ہوگا، اور جو اس میں رکاوٹ بنے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت نے صوبے کو پی ٹی آئی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، گورنر خیبرپختونخوا کا وزیراعظم سے شکوہ
سہیل آفریدی نے سرکاری افسران کو بتایا کہ ان کی حکومت میں کرپشن اور سفارش کی کوئی گنجائش نہیں اور حکومت کے ساتھ تعاون نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام انتظامی افسران پر چیک اینڈ بیلنس رکھے اور ایسے افسران کی فہرست تیار کرے جو حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد میں تعاون نہیں کر رہے یا رکاوٹ بن رہے ہیں۔

’پی ٹی آئی حکومت بیوروکریسی پر دباؤ ڈال رہی ہے‘
خیبر پختونخوا میں تعینات ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی عام انتخابات کے بعد سے سول بیوروکریسی سے ناراض ہے۔
ان کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدواروں کا کہنا ہے کہ انتظامی افسران نے الیکشن میں مخالف امیدواروں کو مبینہ طور پر کامیاب کرنے میں کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: سہیل آفریدی کابینہ کی فہرست تیار، کون کون شامل ہوگا؟
انہوں نے مزید کہا کہ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی انتقامی کارروائی پر یقین رکھتے ہوئے شروع دن سے ہی بیوروکریسی کو دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے۔
افسر نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہی نگران دور کے افسران کے خلاف کارروائی اور صوبہ بدر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور کچھ افسران کے تبادلے بھی کیے گئے۔

’افسران کا کام حکومتی پالیسیوں پر عمل کرنا ہے، لیکن سیاسی مداخلت ان کے کام کو متاثر کرتی ہے۔ اس میں افسران کا کوئی ذاتی قصور نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت بیوروکریسی کو دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد سے آنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی تعیناتی پر پی ٹی آئی ورکرز نے شور مچایا اور مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد مارچ کے دوران اسی نے کارروائی کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں:بنوں واقعے پر ایپکس کمیٹی کا اہم اجلاس، گورنر خیبرپختونخوا کو دعوت نہیں دی گئی
اس کے بعد اس کی ڈی پی او تعیناتی واپس لے لی گئی، مگر کچھ عرصے بعد اسے دوبارہ ڈی پی او تعینات کر دیا گیا، اعلیٰ افسر کے مطابق اس طرح کی انتقامی کارروائیاں افسران کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہیں۔
’خیبر پختونخوا میں ویسے بھی قابل افسران کی کمی ہے، اور جو کام کر رہے ہیں ان پر دباؤ بڑھایا گیا تو کارکردگی متاثر ہوگی۔‘
’خیبرپختونخوا میں گورننس ایک بڑا مسئلہ‘
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے صحافی طارق آفاق کے مطابق، فہرستیں تیار کرنے کا عمل بنیادی طور پر بیوروکریسی کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے۔
یہ سہیل آفریدی کی جانب سے اُن افسران کے خلاف انتقامی کارروائی کا عندیہ ہے جنہوں نے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

’اس اقدام سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت عدم تعاون کرنے والے افسران کی فہرستیں تیار کر کے انتقامی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے، جبکہ تعاون کرنے والے افسران کو نوازا جائے گا۔‘
سینیئر صحافی عرفان خان کے مطابق صوبے میں بدترین گورننس کی صورتحال ہے، 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں انتظامی افسران اور ڈپٹی کمشنرز تبدیل ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سہیل آفریدی بزدار طرز کے وزیراعلیٰ، کے پی میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن نہیں رکےگا، طلال چوہدری
’علی امین گنڈاپور کے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں اور آخری دن تک من پسند افسران کی تقرریاں جاری رہیں۔‘
عرفان خان کےمطابق موجودہ حکومت افسران سے سیاسی تعاون چاہتی ہے، خاص طور پر احتجاج کے معاملات میں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
مزید پڑھیں:عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پر سہیل آفریدی کا عوامی تحریک شروع کرنے کا اعلان
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے اور سیاسی دباؤ ختم نہ ہوا تو بیوروکریسی کہیں بغاوت پر نہ اتر آئے۔
’’نقصان عوام کا ہوگا، اگر حکومت بیوروکریسی کے ساتھ ٹکراؤ کی راہ پر رہی تو انتظامی کارکردگی بری طرح متاثر ہوگی اور نقصان بالآخر حکومت ہی کا ہوگا۔‘














