’اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے‘

منگل 6 جون 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خواجہ محمد وزیر کا ایک شعر آج کل بہت یاد آتا ہے، جناب عمران خان شاعری پڑھنے کا ذوق نہیں رکھتے، ورنہ یہی ایک شعر انہیں ہلا کر رکھ دیتا۔ شعر پڑھنے سے پہلے خواجہ محمد وزیر کے بارے میں کچھ جان لیجیے۔

خواجہ محمد وزیر اٹھارھویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئے اور انیسویں صدی میں، 1857ء کی جنگ آزادی شروع ہونے سے3 برس قبل چل بسے۔ امام بخش ناسخ کے شاگرد تھے۔ خواجہ وزیر بہت زیادہ شعر کہنے والے تھے۔ خاندان اور پھر ان کی ذات ایسی تھی کہ لوگ انہیں دیکھتے ہی پلکیں بچھا دیتے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بھی خاصی تھی جن میں سے ایک ’فقیر محمد گویا‘ بھی تھے۔ ان کے استاد ہونے کے سبب خواجہ محمد وزیر کے معاشی حالات کافی بہتر ہوئے۔ بعدازاں کسی موقع پر استاد شاگرد کے درمیان نزاع پیدا ہوا تو تعلق ٹوٹ گیا، یوں ایک بار پھر مالی مشکلات آن پڑیں۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ انہیں کسی دوسرے رئیس کا ملازم ہونا پسند نہ تھا، نتیجتا باقی ساری عمر مفلسی، تنگ دستی اور گوشہ نشینی ہی میں گزر گئی۔

خواجہ محمد وزیر کا یہ قصہ جان کر، ان کا شعر  پڑھیے جو آج کل میرے لبوں پر اکثر رہتا ہے:

اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر

جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی  کو ایک کیس میں ضمانت ملتی ہے تو دوسرے کیس میں گرفتار کرلیے جاتے ہیں۔ وہ دوران حراست اپنے پارٹی چیئرمین جناب عمران خان کے بارے میں بار بار سوچتے ہوں گے، خیال ہی خیال میں مخاطب کرتے ہوں گے، اور  بار بار یہی شعر دہراتے ہوں گے۔ صرف چوہدری صاحب ہی نہیں، تحریک انصاف کے اندر اور باہر لوگوں کی بڑی تعداد پر  آج جناب عمران خان ہی کے سبب مذکوہ بالا شعر کے معانی و مفاہیم زیادہ واضح  ہوئے ہوں گے۔

اگر آپ پاکستان کے گزشتہ پانچ برسوں کے سلسلہ روز و شب کو واپس آہستہ آہستہ  موڑ سکیں، ایک ایک دن پیچھے کی طرف چلتے جائیں، حتیٰ کہ اگست 2018 کے اس دن تک  پہنچ جائیں جب جناب عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا اور بطور وزیراعظم قوم سے پہلا خطاب فرمایا تھا، تب آپ  بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کاش! کوئی تو ایسا ہوتا جو جناب عمران خان کو قتل عاشقاں سے منع کرتا۔

پھر آپ اس حقیقت سے روشناس ہوں گے کہ نصیحت کرنے والے بہت تھے لیکن جناب عمران خان ہمیشہ اس یقین کی دولت سے مالا مال رہے کہ وہ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ ان کے اردگرد بھی ایسے لوگوں کا جمگھٹا تھا، جو ہر لمحہ یہی مالا جپتا تھا کہ سر! آپ سے بہتر کوئی معاملات کا فہم رکھنے والا نہیں، آپ سے بہتر کوئی حکمت کار نہیں اور آپ ہی بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔

جناب عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد  پہلی بار برطانیہ جانے لگے، وزرات خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ سر! بریفنگ لے لیجیے کہ وہاں کس کے ساتھ کیا اور کس انداز میں بات کرنی ہے، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے زیادہ برطانویوں کو کوئی نہیں جانتا۔

آپ جولائی 2021ء میں ازبکستان کے دورے پر تھے، ایک تقریب میں ازبک شرکاء سے فرمانے لگے کہ میں ازبکستان کو ازبکستان کے لوگوں سے بہتر جانتا ہوں۔ ایسے ہی دیگر متعدد مواقع پر جناب عمران خان نے ہر ایک فرد اور ہر گروہ کے سامنے یہی دعویٰ کیا کہ ان سے بہتر کوئی معاملہ فہم نہیں۔

عمران خان کے اس زعم نے کئی بار پاکستان کے لیے مسائل بھی پیدا کیے۔2019ء میں ایران کے دورے پر گئے، اس وقت کے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں دہشت گردی ایک بڑا موضوع بحث رہی، اس کے بعد  مشترکہ پریس کانفرنس تھی، جہاں پوری دنیا کے میڈیا پرسنز موجود تھے۔ عمران خان  حسن روحانی کو مخاطب کرکے فرمانے لگے’مجھے علم ہے کہ آپ کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور ہماری طرف سے بھی ایران میں دہشت گردی کے گروہ آتے رہے ہیں۔

موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس دورے میں بطور ڈی جی آئی ایس آئی شامل تھے۔ اس موقع پر انہوں نے دو وفاقی وزرا کے ذریعے عمران خان کو نوٹس بھیجے کہ آپ نے یہ بات پاکستان کے مفادات کے خلاف کہی ہے۔آپ مزید گفتگو میں فلاں اور فلاں باتیں اس انداز میں کہیں۔ تاہم سب سے بہتر جاننے والے وزیراعظم نے ایسا کچھ بھی نہ کہا۔ بعدازاں ان وزرا نے عمران خان کو شکایت کے انداز میں بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی ایسی بات کہہ رہے تھے، اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ میں ڈی جی آئی ایس آئی سے بہتر سمجھتا ہوں۔

دانا لوگ ازل سے سمجھاتے رہے ہیں کہ ’میں سب سے بہتر جانتا ہوں اور سب سے بہترسمجھتا ہوں‘ کے زعم میں مبتلا شخص ایک نہ ایک دن سخت خسارے میں چلا جاتا ہے۔ جناب عمران خان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔

سوچیے! اگر جناب عمران خان صوبہ پنجاب و خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں نہ توڑتے، قومی اسمبلی کی نشستوں کو ٹھوکریں مار کر باہر سڑک پر نہ آتے۔ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانے کا منصوبہ نہ بناتے اور جنرل ندیم انجم کی آئی ایس آئی چیف تعیناتی فوراً کردیتے، اس کے لیے 100 کالے الوؤں کا خون مردار کی ہڈیوں پر ڈلوا کر  روحانی وطیفہ نہ کرواتے، کیا انہیں آج یہ دن دیکھنے پڑتے؟ اگر یہ سب کچھ کرلیا تھا، کم از کم 9مئی کے دن آرمی چیف کے خلاف بغاوت کا منصوبہ نہ بناتے! جیسا کہ بہت سی زبانوں پر اس کی تفصیل آچکی ہے۔

 کہا جاتا ہے کہ ترکیہ کی تصاویر اور ویڈیوز دکھا کر پی ٹی آئی کارکنوں کا لہو گرمایا جاتا رہا جب ترک نوجوان  جناب طیب اردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے فوجیوں اور ان کے ٹینکوں کا حشر نشر کررہے ہیں، باغی فوجیوں کا ڈھیر لگاکر انہیں اپنی بیلٹوں کے ساتھ مار رہے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ 9مئی کی شام جناب عمران خان، ان کے ساتھیوں اور کارکنوں کو 100فیصد یقین ہوچلا تھا کہ انہوں نے میدان مار لیا۔ وہ جنرل ساحرشمشاد کی نشری تقریر کا انتظار کر رہے تھے۔ معلوم نہیں کس احمق نے پی ٹی آئی والوں کو یقین دلایا تھا کہ آرمی چیف ملک میں نہیں، اس لیے جنرل ساحر شمشاد ’حقیقی آزادی والے انقلاب‘ کو دیکھتے ہی  فوج کی کمان سنبھال لیں گے اور اس کے بعد اقتدار کا ہما جناب عمران خان کے سر پر بٹھا دیں گے۔

کہتے ہیں کہ کسی جنگل میں ایک گیڈر کو لومڑی نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے قائل کرلیا کہ وہ بھیڑیے سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہے، اور جنگل کا موجودہ بادشاہ شیر تو بھیڑیے سے ڈرتا ہے۔ لومڑی نے گیڈر سے کہا کہ تمہاری شکل ہوبہو بھیڑیے جیسی ہے اور باقی جسم بھی اور رنگ ڈھنگ بھی۔ قد اور ڈیل ڈول ذرا کم ہے تو کیا ہوا۔ لومڑی کو شیر پر کوئی بہت سخت غصہ تھا، باقی سب جانوروں کو شیر کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی لیکن وہ سمجھ دار نکلے۔ ایک بدقسمت گیڈر ہی تھا جو اس کی باتوں میں آگیا اور  شیر کو مار بھگانے کے منصوبے کا مرکزی کردار بننے پر تیار ہوگیا۔

طے پایا کہ گیڈر شیر کے سامنے جائے گا، جب گیڈر کی آنکھیں سرخ ہوں گی اور دم کے بال کھڑے ہوں گے تو لومڑی اسے سگنل دے گی اور پھر گیڈر شیر پر جھپٹ پڑے گا۔ بالآخر وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا۔ گیڈر شیر کے مقابل کھڑا ہوگیا، اور شیر پر جھپٹ پڑا۔شیر نے ایک جھانپڑ رسید کیا اور  انقلابی منصوبے کا واحد اور مرکزی کردارکئی فٹ دور جاگرا۔ پھر وہ اٹھا اور لومڑی کی طرف منہ اٹھا کر کہنے لگا:’تم نے مجھے غلط سگنل دیدیا، ابھی میری آنکھیں سرخ نہیں ہوئی تھیں اور دم کے بال بھی کھڑے نہیں ہوئے تھے‘۔

9مئی کو بھی کسی لومڑی نے  حقیقی آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو غلط طور پر سگنل دیدیا تھا کہ آنکھیں بھی سرخ ہیں اور دم کے بال بھی کھڑے ہیں۔ اب جھانپڑ پر جھانپڑ پڑ رہے ہیں۔اور جناب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مجھے 5لوگوں نے گمراہ کیا تھا، فوج کے خلاف بھڑکایا تھا۔ یہ بھی کہا کہ وہ پانچوں افراد اب تحریک انصاف چھوڑ گئے ہیں۔

جناب عمران خان کی معصومیت بہت بھلی لگتی ہے جب وہ کسی بھی قسم کی ندامت اورخفت کو خاطر میں لائے بغیر اپنی ساری غلطیوں کا الزام کسی دوسرے کے کندھے پر دھر دیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک ہی الزام کسی ایک کے کندھے پر رکھتے ہیں، پھر وہاں سے اٹھا کر دوسرے کے کندھے پر، پھر کوئی موقع آتا ہے تو  وہی الزام تیسرے کے کندھے پر رکھ دیتے ہیں۔

جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، اطلاع ملی کہ پاکستان تحریک انصاف کے صدر جناب چوہدری پرویز الٰہی نے گزشتہ شب حوالات میں گزارنے کے بجائے باہر ایک کرسی پر بیٹھے بیٹھے گزار دی۔ انہوں نے حوالات میں اس لیے رات نہیں گزاری کہ وہاں بدبو تھی، گرمی تھی اور  مچھر تھے۔

انہیں رہ رہ کر اپنا چیئرمین یاد آرہا تھا، وہ ان کی بات مان لیتا اور قتل عاشقاں نہ کرتا تو یوں کارواں سے نہ بچھڑتا۔ دروغ بر گردن راوی ان دنوں لاہور میں مقیم جناب آصف علی زرداری نے ایک رقعہ ’بنام چوہدری پرویز الٰہی‘ بھیجا ہے، اس پر صرف خواجہ  محمد وزیر کا یہی قتل عاشقاں سے منع کرنے والا  ایک شعر لکھا ہوا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp