پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی ہے کہ قیدی کی جیل منتقلی کا فیصلہ کون کرتا ہے، پرسوں تک پوچھ کر بتائیں۔
عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی سے اٹک جیل میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ نعیم حیدر پنجوتھا ایڈووکیٹ کو کل تفتیش کے نام پر 9 گھنٹے ایف آئی اے نے اپنے آفس میں روکے رکھا۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ آج خواجہ حارث کو بھی ایف آئی اے نے طلب کر رکھا ہے، اس طرح سے نام نہاد تفتیش کے نام پر بٹھانا غیر قانونی حراست میں رکھنا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش کے نام پر کسی کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کے حقوق ہیں۔ قانون میں قیدی کو جو حق دیا گیا ہے وہ ضرور ملنا چاہیے، وکیل سے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے وکلا کو ہدایت کی وہ اسے سیاسی معاملہ بنائے بغیر دو یا تین وکلاء مل کر ملاقات کریں، انہوں نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں اس لیے قیدیوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی رکھا جاتا ہے۔
عدالتی استفسار پر شیر افضل مروت نے بتایا کہ حکومت کے پاس پنجاب میں کسی بھی جیل میں شفٹ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل جانے کی درخواست دی تھی جو منظور ہوئی تھی۔
عمران خان کے وکیل کے مطابق جیل رولز کے مطابق سابق وزیر اعظم اے کلاس کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں اے کلاس نہیں اس لیے انہیں وہاں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ان کو بیرک کے بجائے سیل میں رکھا گیا ہے، رات کو بارش کا پانی بھی اس کمرے میں گیا جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو رکھا گیا۔
وکیل نے کہا کہ ہو سکتا ہے سیکیورٹی کے باعث بیرک میں نہ رکھا گیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا گیا تھا مگر اٹک جیل بھجوا دیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کے بجائے ڈسٹرکٹ جیل اٹک بھجوانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ ٹرائل کورٹ نے سزا سنائی مگر بطور قیدی کسی کو اس کے حاصل کردہ حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل میں اے کلاس کے حق سے محروم کرنے کے لیے اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔ انہیں گھر کا کھانا فراہم کرنے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قیدی کی جیل منتقلی کا فیصلہ کون کرتا ہے، پرسوں تک پوچھ کر بتائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 11 اگست تک ملتوی کر دی۔
عمران خان کے وکیل کی جانب سے کل سماعت کی استدعا پر چیف جسٹس عامر فاروق نے بتایا کہ طبیعت خرابی کے باعث شاید وہ کل دستیاب نہ ہوں۔