جب سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سپریم کورٹ کارروائی سے بال بال بچے

بدھ 8 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہیومن رائٹس سیل میں دائر ہونے والی درخواستوں کو سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا یہی وہ نقطہ تھا جس کے تحت سپریم کورٹ نے آج ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی زاہدہ جاوید اسلم کی درخواستیں نمٹا دیں اور جنرل (ر) فیض حمید جو اس مقدمے میں کئی دیگر افسران کے ساتھ فریق تھے وہ پیش ہونے سے بچ گئے۔ لیکن سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں۔

2017 میں زاہدہ جاوید اسلم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جن کا کنور معیز احمد خان کے ساتھ زمین کا جھگڑا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دونوں فریقین کو چیمبر میں بلا کر اس معاملے میں ایف آئی اے، انسداد دہشت گردی اور راولپنڈی پولیس کو نوٹسز جاری کیے تھے۔ آج عدالت نے اس عدالتی کارروائی پر سخت ریمارکس دیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک چیف جسٹس کس طرح سے کسی کو چیمبر میں بلا کر عدالتی کارروائی چلا سکتا ہے، اور سپریم کورٹ میں سنگل جج کے مقدمہ سننے کا تو تصور بھی نہیں۔ چیف جسٹس نے عدالت میں موجود 2 سینیئر وکلا فاروق ایچ نائیک اور سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ سے قانونی رائے طلب کی کہ آیا چیف جسٹس اس طرح سے چیمبر میں عدالتی کارروائی کر سکتا ہے، تو دونوں سینیئر وکلا نے رائے دی کہ ایسی کاروائی کو عدالتی کارروائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس پر سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس کی جانب سے چیمبر میں چلائی گئی کارروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ کنور معیز احمد خان اور زاہدہ جاوید اسلم کے درمیان ٹاپ سٹی کی ملکیت کا معاملہ متعلقہ عدالتی فورم پر حل ہو گیا تھا۔ لیکن کنور معیز احمد خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 12 مئی 2017 کو ان کے مؤکل اور اہلخانہ کو اغوا کیا گیا تھا۔ کنور معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ آئی ایس آئی کے افسران نے 12 مئی 2017 کو فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے ہیڈ آفس جی الیون مرکز پر ریڈ کیا اور وہاں سے زمین کی رجسٹریاں، کیش، سونا اور دیگر قیمتی دستاویزات قبضے میں لے لی تھیں۔

انہوں نے درخواست میں جنرل (ر) فیض حمید سمیت کئی سابق فوجی افسران کو فریق بنایا تھا۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ اس ریڈ کا مقصد درخواست گزار کی زمین پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل چوہدری حفیظ الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے براہِ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور فیض حمید اب عام شہری ہیں، عدالتی نوٹس کا جواب دینا چاہیے، تجزیہ کار

جسٹس اطہر من اللہ نے کنور معیز احمد خان کی سپریم کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں دائر کی گئی درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں دی گئی درخواستیں غیر قانونی ہیں۔ اس پر عدالت نے ہیومن رائٹس سیل کے ڈائریکٹر جنرل سے استفسار کیا کہ ہیومن رائٹس سیل میں دائر درخواستوں کو کس قانون کے تحت سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، اس حوالے سے کون سے رولز اینڈ ریگولیشنز ہیں اور کیا کسی عدالتی فیصلے کے تحت یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوتی ہیں؟ جس پر ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس سیل نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک لیٹر سرکولر جاری ہوا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی قانون میں ترمیم کی گئی تھی لیکن ڈی جی ہیومن رائٹس سیل نے نفی میں جواب دیا۔ ڈی جی ہیومن رائٹس نے یہ بھی بتایا کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے حکم پر ہیومن رائٹس سیل کی 3 لاکھ ان ایکٹو درخواستوں کو تلف بھی کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان ایکٹو درخواستیں وہ ہوتی ہیں جن پر سپریم کورٹ کوئی رپورٹ یا جواب طلب نہیں کرتی۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے تو ایک ’متوازی نظام انصاف چل رہا ہے‘۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سابق یا حاضر سروس فوجی افسران کے خلاف شکایات کے لیے متعلقہ فورم کیا ہے؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل چوہدری حفیظ الرحمان نے بتایا کہ وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی زاہدہ جاوید اسلم نامی ایک خاتون کی درخواست بھی زیر التوا ہے، جس پر چوہدری حفیظ الرحمان نے کہا کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہیومن رائٹس سیل میں ازخود نوٹس کے تحت کس طرح سے درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں فیض حمید آرمی چیف بننے کے لیے عمران خان کی ہر بات سنتے تھے: عبدالعلیم خان

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کو بتا رہے ہیں، جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ان چیمبر سماعت اور عدالتی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے مطابق رجسٹرار آفس کی جانب سے کسی درخواست پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے خلاف صرف چیمبر اپیل کا تصور موجود ہے۔

’زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست پر متعلقہ عدالت پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے اور کنور معیز احمد خان ریٹائر فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع اور متعلقہ فورمز پر درخواستیں دائر کر سکتے ہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp