جراسک پارک اور جراسک ورلڈ جیسی فلمیں تو آپ نے دیکھی ہوں گی جن میں ڈائناسور کی ایک قسم ٹی ریکس تباہی مچا رہی ہوتی ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈائنا سور کی یہ خطرناک قسم اب بھی ایک نئی شکل میں ہمارے اردگرد موجود ہے بلکہ ہم اسے بہت شوق سے کھاتے ہیں؟
جی ہاں یقین کرنا مشکل ہوگا مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ٹی ریکس اور اسی نسل کے ڈائنا سور مرغی اور موجودہ عہد کے دیگر پرندوں کے قریبی رشتے دار ہیں۔
مگر ایسا کیسے ممکن ہوا یہ وہ معمہ ہے جو دہائیوں سے قدیم حیاتیاتی ماہرین کو سر کھجانے پر مجبور کررہا ہے۔
مگر اب اس معمے کو حل کرنے کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی کیونکہ ایک عجیب جاندار کے فوسل کا تجزیہ کرنے پر کچھ نئی تفصیلات ایک تحقیق میں سامنے آئی ہیں۔
یہ فوسل ایک ایسے عجیب جانور کے ہیں جس کا جسم تو پرندے جیسا تھا مگر کھوپڑی ڈائنا سور کی تھی اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ فوسل 12 کروڑ سال پرانے ہیں۔
ماہرین پہلے ہی کافی حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کے پرندے بنیادی طور پر بڑے گوشت خور ڈائنا سور theropods (ٹی ریکس بھی ان ڈائنا سور کی ایک قسم تھا) کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ ڈائنا سور زمین پر کروڑوں سال پہلے گھوما کرتے تھے، مگر سائنسدانوں کو یہ معلوم نہیں کہ آخر اس عظیم الجثہ جاندار نے پرندوں کی شکل کیسے اختیار کرلی۔
اب تک جو فوسل ملے وہ یا تو ڈائنا سورز کے تھے یا پرندوں کے، اس لیے ڈائنا سور کی کھوپڑی والا پرندہ بہت اہم خیال کیا جارہا ہے۔
اس کا نام Cratonavis zhui رکھا گیا ہے اور یہ عجیب جاندار لمبی دم والے Archaeopteryx اور موجودہ عہد کے پرندوں کے اجداد سمجھے جانے والے Ornithothoraces کے درمیان سمجھا جاسکتا ہے۔
Archaeopteryx کو عرصے تک پرندوں اور ڈائنا سورز کے درمیان واحد تعلق سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے پر کسی پرندے جیسے تھے مگر بڑی دم اور کمر کسی ڈائنا سور کی طرح۔
مگر وقت کے ساتھ زمانہ قدیم کے پرندوں جیسے کئی جانداروں کے فوسل سامنے آئے اور 90 کی دہائی میں سائنسدانوں نے Ornithothoraces کو موجودہ عہد کے پرندوں کا جد امجد قرار دیا۔
چین کی اکیڈمی آف سائنس نے Cratonavis کا فوسل دریافت کیا تھا جس کی جانچ پڑتال سی ٹی اسکینز سے کی گئی۔
اس سے انہیں جاندار کی ہڈیوں اور کھوپڑی کی اصل شکل کو دوبارہ بنانے میں مدد ملی۔
تمام تر تجزیے کے بعد محققین نے تصدیق کی کہ اس جاندار کی کھوپڑی ٹی ریکس جیسے ڈائنا سور سے ہو بہو ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کندھوں کے اسکین سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ جاندار فضا میں خود کو مستحکم رکھ سکتا تھا اور بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ بھی کرسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہوئے۔
اگرچہ نتائج سے یہ سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملے گی کہ کس زمانے میں عظیم الجثہ ٹی ریکس نے موجودہ عہد کی مرغی یا دیگر پرندوں کی شکل اختیار کرنا شروع کی مگر اب بھی اس حوالے سے کافی کچھ جاننا باقی ہے۔