سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں حیران ہوں کہ اس کیس میں سازش کو قتل کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس کی آج ہونے والی سماعت میں منظور ملک بطور عدالتی معاون پیش ہوئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا، ’آپ کو کریمنل پہلو پر سننا چاہتے ہیں۔‘
’ہم ضمیر جھنجھوڑ دینے والے پوائنٹس سننا چاہتے ہیں‘
منظور ملک نے جواب دیا کہ پہلے ایک آئینی پہلو آرٹیکل 186 کی تشریح پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’میری گزارش ہو گی کہ مجھے ایسے سنا جائے جیسے آپ 1978 میں اپیل سن رہے ہیں، مجھے سننے کے بعد فیصلہ آپ نے ہی کرنا ہے، آپ شاید کہہ دیں کہ سارا ٹرائل قانونی تھا، کچھ غلط نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ آپ اس کے برعکس رائے قائم کریں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو ایسے میجر پوائنٹس پر سننا چاہیں گے جو ضمیر جھنجھوڑ دینے والے ہوں۔
’کیس ریکارڈ بعد میں لیا گیا، تفتیش پہلے شروع کر دی گئی‘
منظور ملک نے دلائل دیے کہ مقدمہ کا ریکارڈ 8 اگست 1977 کو دوبارہ تفتیش کے لیے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا اور تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع کر دی گئی تھی۔
عدالتی معاون نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی، سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی۔
منظور ملک نے عدالت کو بتایا کہ احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا، قتل کی پہلی تفتیش بند کیسے ہوئی اور دوبارہ شروع کیسے ہوئی یہ اہم ہے، پہلے تفتیش بند کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملزمان کا کچھ پتہ نہیں چلا، پولیس نے مجسٹریٹ سے کیس داخل دفتر کرنے کی استدعا کی تھی۔
عدالتی معاون نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مجسٹریٹ نے پولیس کی کیس بند کرنے کی استدعا منظور کی اور کیس بند کرنے کا باقاعدہ آرڈر جاری کیا، مجسٹریٹ کے اس آرڈر کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا، یہ آرڈر آج تک برقرار ہے مگر ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی۔
’احمد رضا قصوری نے کہا مقدمہ میں بھٹو کا نام دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ قتل انہوں نے کیا‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا؟ منظور ملک نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے صرف یہی لکھا کہ ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی جو کہ صرف تعصب ہی نہیں بلکہ بدیانتی بھی تھی۔
عدالتی معاون نے مزید کہا کہ شفیع الرحمان ٹریبیونل میں احمد رضا قصوری نے بھی بیان دیا، ’بھٹو صاحب کا نام دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انہوں نے خود قتل کیا، ہو سکتا ہے بھٹو صاحب کی بات سن کر کسی اور نے کر دیا ہو۔‘
منظور ملک نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ پولیس سے ایف آئی اے کو تفتیش منتقل کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ انہوں نے بھٹو کیس میں ارشاد قریشی کی جرح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جرح اعتراف جرم کرنے والے ملزم پر تھی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ 164 کے تحت اعترافی بیان تھا، کیا اس بیان میں کہا گیا بھٹو کی ہدایات پر قتل کیا؟
’ملزم نے کہا کہ ایف ایس ایف کے افسران کے کہنے پر قتل کیا‘
منظور ملک بولے کہ ملزم نے کہا ایف ایس ایف (فیڈرل سیکیورٹی فورس) کے افسران میاں محمد عباس اور غلام حسین کی ہدایت پر قتل کیا، میاں محمد عباسی ڈپٹی ڈائریکٹر جبکہ غلام حسین انسپکٹر تھے۔ عدالتی معاون نے مزید کہا کہ دوبارہ تفتیش کا کوئی حکومتی آرڈر موجود نہیں، تفتیشی افسر نے کہا میں نے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیکھا مگر شاید لاہور آفس میں ہو۔
منظور ملک نے دلائل دیے کہ کہا گیا احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش کی گئی، احمد رضا قصوری آج بھی زندہ ہیں، اللہ انہیں لمبی زندگی دے، سیشن جج اعجاز نثار نے پبلک پراسیکیوٹر سے معاملے پر رپورٹ مانگی تھی، اگلے ہی روز کیس ہائیکورٹ کو منتقل ہو گیا۔
’آپ تو ٹی وی چینلز کی ریٹنگز بریک کر رہے ہیں‘
اس موقع پر چیف جسٹس منظور ملک سے مخاطب ہوئے اور کہا، ’میرا خیال ہے کہ آپ تو آج تمام ٹی وی چینلز کی ریٹنگز بریک کر رہے ہیں، سنسنی اور سسپینس کی وجہ سے ہمیں انتظار رہتا ہے کہ آپ آگے کیا کہنے والے ہیں۔‘
منظور ملک بولے کہ وکالت کے دور سے جب بھی بھٹو کیس کا حوالہ دیا تو مجسٹریٹس یہی بولتے تھے کہ اسے رہنے دیں۔
انہوں نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں ذوالفقار بھٹو سمیت کسی ملزم کو نوٹس ہی نہیں ہوا، ایک ہی دن میں مجسٹریٹ نے بھٹو کیس سیشن جج کو بھیج دیا، اس سے بھی اہم انکشاف یہ ہے کہ ایک دن بعد ہی سیشن کورٹ سے کیس ہائیکورٹ منتقل ہوگیا۔
عدالتی معاون منظور ملک نے کہا کہ میں تو وہ باتیں بتا رہا ہوں جو غیر متنازعہ ہیں، ابھی تو آگے اور بھی بھٹو کیس کے بہت سے درد ناک پہلو ہیں۔
’آپ وہ چیزیں بتائیں، جو ہم ہضم کرسکیں‘
جسٹس جمال مندوخیل نے منظور ملک سے سوال کیا کہ کیس ٹرائل کورٹ سے ہائیکورٹ منتقل کرنے کی کوئی درخواست آئی تھی کیا، جس پر منظور ملک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’اس بات پر بھی آتا ہوں، جو بتایا ہے پہلے وہ ہضم کر لیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل بولے، ’آپ پھر وہ چیزیں بتائیں جو ہم ہضم کر سکیں۔‘ منظور ملک نے دلائل دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تعصب کاالزام لگایا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وہ تو ایک جج کی حد تک ہی الزام تھا۔
منظور ملک بولے، ’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، جب چیف جسٹس کو متعصب ہونے کا کہہ دیا جائے تو باقی سب شامل ہو ہی جائیں گے۔‘
اس موقع پر جسٹس سردار طارق مسعود نے منظور ملک سے استفسار کیا کہ آپ کس کو کہہ رہے ہیں؟ عدالتی معاون نے جواب دیا، ’یہ میں تو نہیں کہہ رہا، جس نے محاورہ بنایا اس نے کہا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے، ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ منظور ملک بولے، یہ تو بہت صحتمندانہ چیز ہے، اختلاف کرنے کا مطلب ہے کہ آپ زندہ ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جو اختلاف کرتا ہے، وہ ہاتھی کے پاؤں سے نکل جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے کہا کہ آپ کافی دیر سے کھڑے ہیں تھوڑا وقفہ کر لیں، جس کے بعد عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
’اس وقت کے چیف جسٹس کو یہ کیس سننا چاہیے تھا؟‘
وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالتی معاون منظور ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ستمبر 1977 کو پہلی سماعت ہوئی اور اگلی سماعت پر شواہد طلب کر لیے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل پیش ہوئے تھے، جس پر منظور ملک نے بتایا کہ پہلی سماعت تھی، ابھی پیش نہیں ہوئے تھے، قانونی عمل کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آرڈر شیٹ دیکھ رہا ہوں، لگتا ہے جیسے کوئی سول کیس تھا۔ جسٹس میاں محمد مظہر نے بھی ریمارکس دیے کہ فرد جرم تو 11 اکتوبر کو عائد کی گئی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کسی کے خلاف فرد جرم کے لیے مواد ناکافی ہو تو کیا ہو گا؟
عدالتی معاون منظور ملک نے جواب دیا ایسی صورت میں ملزم بری ہو جائے گا، بھٹو کیس میں فرد جرم بھی ملزمان پر الگ الگ عائد کی گئی، اس اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ ملزمان ایک سے زیادہ ہوں تو فرد جرم ایک ہو گی۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ پہلے ہی دن ذہن بنا لیا گیا کہ بس ملزم آگیا تو ٹرائل ہی کرنا ہے، پہلے ہی دن کہہ دیا گیا شہادتیں طلب کرتے ہیں، سوال یہ بھی ہے اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کو کیا یہ کیس سننا چاہیے تھا، جب وہ لکھ چکے تھے کہ وہ ناراض ہو گئے تو اس کا مطلب تھا کہ وہ پارٹی بن چکے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ذولفقار علی بھٹو پر جو پہلا چارج لگا، ذرا اس کو دیکھیں، اس چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے، کچھ تو بتائیں کہ پرائم منسٹر ہاؤس میں یہ سازش ہوئی یا کہیں اور، میں تو حیران ہوں، اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے۔
’گواہ نے ریٹائرڈ چیف جسٹس کو مارنے کے لیے اسٹین گن لی‘
منظور ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک گواہ نے کہا اس نے ریٹائرڈ چیف جسٹس کو مارنے کے لیے اسٹین گن لی، پھر گواہ نے کہا بیان درست کریں، وہ اصل میں جسٹس جمیل حسین رضوی کہنا چاہتا تھا، اس پر قائمقام چیف جسٹس نے کہا ابھی چیف جسٹس کی باری نہیں آئی؟
منظور ملک نے مزید کہا کہ بھٹو نے جواب میں کہا باری آئے گی، اس پر قائمقام چیف جسٹس نے کہا ایسا کچھ ہوا تو تم ذمہ دار ہو گے، چیف جسٹس نے کہہ دیا مجھے کچھ ہوا تو اس کو پکڑ لینا۔
عدالتی معاون نے کہا جب آپ کسی کے خلاف ایسا کہہ رہے ہیں، پھر اس کا ٹرائل بھی کریں تو نتیجہ کیا نکلے گا، اس مکالمے کا آغاز چیف جسٹس نے خود کیا تھا، باری کا ذکر کر کے۔
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے اسفتسار کیا کہ کیا یہ ساری بات آرڈر میں بھی لکھی گئی، جس پر منظور ملک نے جواب دیا کہ یہ اگر میرے بارے میں ابھی کہہ دیں تو مجھے بھی پکڑ کر لے جائیں گے، چاہیں تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔
’اداکار محمد علی کے خلاف بھی اسٹین گن استعمال ہوئی‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میری وجہ سے کبھی یہ نہیں ہوتا۔ منظور ملک نے عدالت کو بتایا کہ اس گواہ نے کہا اداکار محمد علی کے لیے بھی یہ اسٹین گن استعمال ہوئی۔
چیف جسٹس نے پوچھا اداکار محمد علی کو کیوں مارنا تھا اس سے کیا تعلق تھا، کیا وہ وعدہ معاف گواہ یہ بتا رہا تھا کہ وہ ہٹ مین تھا جو بھی کسی کے خلاف بات کرے اسے مارتا تھا؟
منظور ملک بولے، وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اس دور میں ایسے واقعات ہو رہے تھے یہ کوئی اکیلا کیس نہیں تھا، کار سواروں میں سے احمد رضا قصوری کے علاوہ کوئی کٹہرے میں نہیں آیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا کیس کے شکایت کنندہ کا کوئی بیان ریکارڈ ہوا تھا، جس پر منظور ملک نے بتایا کہ وہ تو واپس پیپلز پارٹی میں بھی چلے گئے تھے، 77 میں ٹکٹ بھی مانگ رہے تھے، باہر جا کر بھٹو کے حق میں باتیں بھی کرتے رہے جو ریکارڈ پر ہیں، انہیں الیکشن میں ٹکٹ نہیں ملا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ شکایت پھر دوبارہ کب درج کرائی گئی، جس پر منظور ملک نے بتایا کہ کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، مارشل لا کے بعد دوبارہ معاملہ چل پڑا۔
’کوئی سنجیدہ ذہن والا ان بیانات و شواہد کو نہیں مان سکتا‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اس وقت وزیراعظم بھٹو سب کو بلا بلا کر کہہ رہے تھے اس کو قتل کردو، کیا وہ ساری دنیا کو بتاتے پھر رہے تھے، جو گواہ کا بیان آپ نے پڑھا کیا اسی پر سزا ہوئی؟
منظور ملک نے جواب دیا، ‘تو اور کس بیان پر سزا ہوئی؟‘ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا بھٹو صاحب کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں، کوئی بھی سنجیدہ ذہن رکھنے والا انسان ان بیانات و شواہد کو نہیں مان سکتا۔
عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔ کل بھی عدالتی معاون منظور ملک دلائل جاری رکھیں گے۔
احمد رضا قصوری کے سوالوں پر چیف جسٹس کا جواب
عدالت نے سماعت ملتوی کی تو احمد رضا قصوری روسٹرم پر آگئے اور کہا یہاں سابق معتبر ججز کو ٹرائل پر ڈالا جا رہا ہے، بہتر ہو گا ان سابق ججز یا ان کے ورثا کو نوٹس کیا جائے، ن سابق ججز کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے، ان سے متعلق یہاں بہت کچھ کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ واضح کر دوں ہم کسی کو ٹرائل پر نہیں ڈال رہے، آئین کے تحت صدارتی ریفرنس سن رہے ہیں، کارروائی براہ راست نشر ہو رہی ہے اور میڈیا میں اچھے سے رپورٹ ہو رہی ہے، اگر کوئی آکر کچھ کہنا چاہے کہہ سکتا ہے۔