آسٹریا میں امام اور یہودی ربی کی دوستی کے چرچے کیوں ہو رہے ہیں؟

جمعرات 29 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسٹریا کے ایک ہائی اسکول کے ایک کمرے میں 150 سے زیادہ طلبہ کا گروپ 2 ایسے مقررین کو سننے کے لیے موجود تھا جن کے درمیان دوستی اور ایک محفل میں ان کی موجودگی کی کوئی توقع نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں

یہ 38 سالہ امام رمضان دیمیر اور 48 سالہ یہودی ربی شلومو ہوفمیسٹر تھے، جن کی باتیں سننے کے لیے طلبہ بے تاب تھے۔

اسکول میں طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے ربی ہوفمیسٹر نے کہا کہ ہمیں مذہب کو سیاست سے الگ کرنا چاہیے۔ ان کی اس بات سے امام دیمیر نے اتفاق کیا اور اثبات میں سر ہلایا۔

ربی ہوفمیسٹر نے مزید کہا، ’یہ کوئی مذہبی جنگ نہیں بلکہ ایک خوفناک سیاسی تنازعہ ہے، جس کا یورپ میں ہماری کمیونٹیز پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔‘

7 اکتوبر کو شروع ہونے والی حماس اسرائیل جنگ اور غزہ پر اسرائیلی کی مسلسل اور وحشیانہ بمباری کے بعد یہ دونوں مذہبی پیشوا مل کر طلبہ کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیم دے رہے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس اسرائیل جنگ کے بعد یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح آسٹریا میں بھی یہود اور اسلام مخالف واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

امام اور ربی کی دوستی کیسے ہوئی؟

ان دونوں مذہبی پیشواؤں کی ملاقات 10 سال قبل ایک بین المذہبی منصوبے سے متعلق منعقدہ ایک اجلاس میں ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ان دونوں نے مل کر مذہبی رواداری کا پرچار شروع کیا اور ترکیہ، اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا سفر بھی کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ نے ان کی دوستی کو متاثر نہیں کیا۔ امام دیمیر کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ غزہ میں اگر مگر کے بغیر امن قائم ہونا چاہیے۔ ربی ہوفمیسٹر کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ  بروقت تعاون شروع کیا۔‘

آسٹریا میں ان دونوں مذہبی پیشواؤں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ بقول امام رمضان دیمیر، ’ہم دونوں کی دوستی دقیانوسی تصورات کی نفی کرتی ہے۔‘

ان دونوں کی مقبولیت کا اب یہ عالم ہے کہ طلبہ سے خطاب کے لیے ان کی ڈائریوں میں جون تک کا شیڈول تیار ہوچکا ہے۔ اس شیڈول کے تحت وہ آسٹریا کے تقریباً 30 اسکولوں کا دورہ کریں گے۔

گزشتہ ہفتے ایک ہائی اسکول میں 2 گھنٹے کی بحث کے دوران 16 سے 18 سال کی عمر کے طلبہ نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ اسکول کے ہال میں جنہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی ان کے لیے لائیو اسٹریمنگ کا انتظام کیا گیا تھا تاکہ وہ بھی جان سکیں یہودی اور مسلمان عبادت کیسے کرتے ہیں اور کوشر اور حلال کے درمیان کیا فرق ہے۔

’امام اور ربی کی دوستی نے طلبہ میں دلچسپی پیدا کی‘

ویانا کے اسکول میں جہاں یہ دونوں مقررین بات کر رہے تھے، وہاں 63 مختلف قومیتوں کے 1200 طلبہ زیر تعلیم ہیں لیکن کسی بھی طالب علم نے اپنے یہودی ہونے کو ظاہر نہیں کیا۔ اس سیشن کے دوران جب بھی وقفہ ہوتا تو متعدد طلبہ ان دونوں مذہبی پیشواؤں کے گرد جمع ہو جاتے اور وہ دونوں ماحول کو غیرمتنازعہ بنائے رکھنے کے لیے ہلکا پھلکا مزاح بھی کرتے۔

ایک طالبعلم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے یہ جان کر اچھا لگا کہ یہ دونوں مذاہب ایک جیسے ہیں۔۔

واضح رہے کہ آسٹریا ایک اکثریتی کیتھولک ملک ہے جس کی آبادی کا تقریباً 8 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ صرف 0.1 فیصد (تقریباً 5 ہزار 400 افراد خود کو یہودی ظاہر کرتے ہیں۔

اسکول کے ڈائریکٹر کا بھی کہنا تھا کہ امام اور ربی کے درمیان تعلق اور احترام نے طلبہ میں بھی دلسچپی پیدا کی کہ وہ ان کی بات سنیں۔

ربی ہوفمسٹر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے جانے کے بعد طلبہ کو وہ سب کچھ یاد نہ ہو جو ہم نے انہیں بتایا لیکن وہ یہ بات یاد رکھیں گے کہ ایک امام اور ایک ربی ان کے اسکول میں آئے تھے اور ملکر بات کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp