آج سے ٹھیک دو سال پہلے ایک طویل، تھکا دینے والے دن کے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں ایک جمہوری آئینی طریقے سے وزارت عظمٰی سے سبکدوش کیا گیا۔ اس دن اور پھر رات کو بہت کچھ ہوا، اسمبلیاں توڑنے کی سازش کی گئی، مارشل لا کی فرمائش کی گئی، آئین توڑا گیا مگر نتیجہ وہی نکلا جو نوشتہ دیوار تھا۔
عمران خان ہاتھ میں ایک ڈائری تھامے وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ یوں سیاست کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس تحریر میں صرف اس بات پر غور کرنا ہے کہ دو سال پہلے جو حالات تھے اور جو سوچ تھی، جو خیال تھا کیا ہم آج اسی مقام پر کھڑے ہیں یا پھر حالات، خیالات اور نظریات تبدیل ہو چکے ہیں۔
دو سال پہلے جب عمران خان کو اقتدار سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے الگ کیا گیا تو سب نے سمجھا کہ عمران خان کا سیاسی سفر اب ختم ہو گیا ہے۔ وہ ایک سیلیکٹڈ وزیر اعظم تھے جو طاقتوروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر آئے تھے اور اقتدار چھن جانے کے بعد ان کا حشر اب شوکت عزیز یا میر ظفر اللہ جمالی جیسا ہو گا۔ عمران خان نے ان سب خیالات کو غلط ثابت کیا۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے اور اس دن کے بعد انہیں حقیقی قبولیت عامہ بھی حاصل ہوئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو عمران خان جلد ہی پاکستان کے سب سے ناکام، غیر مقبول وزیر اعظم بن جاتے لیکن تحریک عدم اعتماد نے انہیں ایک غیبی مدد فراہم کی جس کی شاید انہیں بھی توقع نہ تھی۔ عمران خان کو ان کی مدت پوری کرنے دی جاتی تو شاید وہ ختم ہو جاتے مگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے عمران خان کی سیاست کو ایک نیا جنم دیدیا۔
دو سال پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمران خان کے ماننے والے ایک سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکہ ایک فین کلب ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ یہ برگر کلاس کے بچے ہیں جو بس پارٹی کرنا جانتے ہیں۔ جدوجہد اور جارحیت ان کے بس کی بات نہیں۔ دو برس میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ عمران خان نے نہ صرف نوجوانوں کو بھڑکایا، اکسایا اور ان کو اس طرح اکٹھا کیا کہ انہی برگر بچوں نے نو مئی جیسا سانحہ کر دیا۔ اس میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے کبھی لڑائی مار کٹائی نہیں دیکھی تھی، وہ بچے بھی شامل تھے جو انگریزی میڈیم میں پڑھے تھے اور وہ افسران بھی شامل تھے جن کا تعلق اسی ادارے سے تھا جس کے خلاف نو مئی کیا گیا تھا۔
یہ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی تھی جس کا تصور کسی نے بھی دو سال پہلے نہیں کیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ برگر بچوں کی یہ جماعت اقتدار سے ہٹتے ہی فنا ہو جائے گی۔ اس کا شیرازہ خود ہی بکھر جائے گا اور چند دنوں میں اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔
دو سال پہلے عام خیال یہ تھا کہ شہباز شریف سے بہتر وزیر اعظم کا امیدوار کوئی نہیں ہو سکتا۔ شہباز سپیڈ سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت پاکستان کو نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بنے اور ان کی سولہ ماہ کی کارکردگی سے ن لیگ اور پی ڈی ایم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بیانیہ، نظریہ، سوچ سب مہنگائی کے طوفان میں غارت ہو گئی۔
عوام کے لیے یہ سولہ ماہ اذیت کے مہینے تھے۔ ہر روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا۔ شہباز شریف نے شیروانی تو ضرور پہن لی مگر عوام کے تن سے کپڑے تک اتروا دیے۔ توقع تھی کہ حکومت اپنی کارکردگی سے اگلے انتخابات میں ن لیگ کی تاریخی فتح کے لیے راہ ہموار کرے گی مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ ان سولہ ماہ میں ایک ایسی کالک تیار ہوئی جو شہباز شریف کے ہاتھ سے ساری جماعت کے منہ پر مل دی گئی۔ شہباز سپیڈ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی اور ووٹ کی عزت پر ایک چمکتی شیروانی ڈال دی گئی۔
دو سال پہلے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سمجھا گیا کہ اب تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو جائے گا۔ پنجاب ہوا کا رخ پہچانے گا۔ خیبر پختونخوا پھر وہی تجربہ نہیں کرے گا۔ بلوچستان طاقتوروں کا ساتھ دے گا۔ سندھ روایت پسندی کا مظاہرہ کرے گا۔ آٹھ فروری کے انتخابات نے سب کچھ غلط ثابت کر دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف عتاب کا شکار رہی، وہ اپنے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکی، بے شمار لوگ روپوش رہے، بے شمار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے مگر اس استبداد کے باوجود تحریک انصاف کے ووٹر نے جس اکثریت سے ووٹ ڈالا اس سے عسکریت بھی حیران ہو گئی۔ خیبر پختونخوا میں کسی اور پارٹی کا وجود نہیں بچا۔ پنجاب میں ن لیگ بہ مشکل اکثریت حاصل کر سکی۔ وفاق میں تحریک انصاف اس سب کچھ کے باوجود ایک بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس سب کچھ کا کسی نے دو برس پیشتر تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ان دو برسوں میں بہت سے نظریات باطل ہوئے، بہت سی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ کوئی دو سال پہلے سوچ نہیں سکتا تھا کہ تحریک انصاف کا نیا جمہوری جنم ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا اس ملک میں نو مئی ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا شہباز شریف کی گورننس منہ کے بل گر پڑے گی۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کا ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں نکلے گا۔ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے باوجود ن لیگ سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہے گی اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ محسن نقوی کی حکمرانی کی صورت میں نکلے گا۔