سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں بلوچستان کا مسئلہ درست طریقے سے نہیں سمجھا جارہا۔ یہ احساس محرومی نہیں احساس شناخت کا مسئلہ ہے۔ بطور وزیراعظم مجھے کٹھ پتلی جیسے ہتک آمیز القابات دیے گئے مگر فوج اہم اجلاسوں میں نہ صرف میری بات سنتی تھی بلکہ منطق درست ہونے پر اپنی رائے بھی تبدیل کر لیتی تھی۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ آپریشن عزم استحکام پر حکومت سے کمیونیکیشن میں کمزوری ہوئی ہے، اصل میں یہ پرانے آپریشنز جیسا نہیں ہوگا کیونکہ اس میں عوام کو اپنے علاقوں سے نہیں نکالا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں شناخت کی بنیاد پر قتل کیوں ہورہے ہیں؟ انوار الحق کاکڑ کا وی نیوز کو خصوصی انٹرویو
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ جب میں حکومت میں تھا تو بہت سارے لوگ بے اختیار سمجھتے تھے، کچھ لوگوں نے کٹھ پتلی جیسے ہتک آمیز الفاظ بھی استعمال کیے مگر میں اُس وقت بھی اور آج بھی اپنے تمام اقدامات کی ذمہ داری لیتا ہوں۔
سابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ موجودہ حکومت یہ تاثر قطعاً نہیں دے سکتی کہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے اور انہیں کچھ پتا نہیں بلکہ متعلقہ فورمز موجود ہوتے ہیں جہاں کھل کر گفتگو ہوتی ہے اور اس میں بات سنی جاتی ہے۔
’میں نے بطور نگراں وزیراعظم جب بھی فوجی سائیڈ کو کوئی رائے دی اور حتیٰ کہ کچھ فیصلوں سے عدم اتفاق کیا تو مجھے اہمیت دی گئی، سنا گیا اور جہاں منطقی انداز سے سمجھا گیا کہ میری بات درست ہے تو اُس رائے کو تبدیل بھی کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی یہ نہیں سمجھتے کہ منتخب حکومت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی یا ان کو صرف بتا دیا جاتا ہے۔
’بلوچستان کے مسئلے کو درست طریقے سے نہیں سمجھا جارہا‘
سابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ پاکستانی مین اسٹریم میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے مسائل ترقی اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہیں، حالانکہ مسئلہ احساس محرومی نہیں بلکہ احساس شناخت ہے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ اس معاملے پر دو طرح کی انتہائیں ہیں۔ ایک وہ سخت گیر ہیں جو ہر وقت ریاست کو ہی مورود الزام ٹھہراتے ہیں، وہ سول ملٹری عدم تعاون کے زوایے سے اس معاملے کو دیکھتے ہیں، اور جو ان کے قومی سیاسی بیانیے سے مماثلت رکھتا ہے وہ اسی کے ساتھ بلوچستان کو بھی نتھی کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان کا اصل خزانہ اس کے لوگ اور تہذیب جبکہ سلیقہ اس کی پہچان ہے، انوارالحق کاکڑ
انہوں نے مثال دی کہ پی ٹی آئی کے جو لوگ ماضی میں تین چار سال قبل ان شدت پسندوں پر تبرا بھیجتے تھے وہ آج ان کے ساتھ اتنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ان کا دل بدل گیا ہے بلکہ ان کی سیاسی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اسی طرح ماضی میں جو لوگ ان کی حمایت کرتے تھے اب وہ ان کی مذمت کرتے ہیں۔
بلوچستان کی صورتحال ہے کیا؟
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ بلوچ قومیت پرستی کی دو جہتیں ہیں۔ ایک سوچ یہ سمجھتی ہے کہ بلوچوں کی شناخت کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی حقوق کے حصول کے لیے جمہوری جدوجہد ہونی چاہیے۔
’اس میں قائدانہ کردار میر غوث بخش بزنجو تھے پھر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے حاصل بزنجو ہیں، جبکہ ڈاکٹر مالک اور یہ ایک پورا گروہ ہے، ساتھ میں سردار عطااللہ مینگل بھی سیاسی جدوجہد کے حامی ہیں‘۔
سابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ دوسری سوچ مسلح علیحدگی پسندوں کی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کے حقوق جمہوری سیاسی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتے۔
’نواب خیر بخش مری اس کے سرخیل تھے، جن کو شدت پسند احترام سے دیکھتے اور اپنا سربراہ سمجھتے ہیں‘۔
انہوں نے کہاکہ جب 70 کی دہائی میں نواب خیر بخش مری حیدرآباد سازش کیس سے بری ہوئے تو وہ افغانستان چلے گئے، جبکہ میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنا لی۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ نواب خیر بخش مری نے افغانستان سے واپسی پر ’حقوق کی آواز‘ کے نام سے تحریک شروع کی اور مسلح جدوجہد کے فلسفے کے تحت لوگوں کو اکٹھا کیا۔
انہوں نے کہاکہ سال 2000 میں جب ہائیکورٹ کے جج کے قتل کے الزام میں ان کی گرفتاری ہوئی تو پھر نواب اکبر بگٹی بھی ان کے قریب آگئے اور تحریک میں تیزی آگئی۔ ’اب 70 کی دہائی سے فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ مری قبیلہ اکیلا نہیں تھا بلکہ وہ ماسٹر ٹرینر کے طور پر صوبے بھر میں لوگوں کو بغاوت پر اکساتا رہا‘۔
پاکستان میں لوگوں کو کون سے مناظر نظر نہیں آتے؟
بلوچ خاتون رہنما ماہ رنگ بلوچ پر گزشتہ سال اسلام آباد میں مظاہرے کے دوران لاٹھی چارج اور پانی پھینکنے کے مناظر پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں وہ مناظر نہیں کہ جب تفتان سے کوئٹہ سفر کے دوران بس میں سے لوگوں کو نکال کر شناختی کارڈ طلب کرتے ہوئے موقع پر قتل کردیا جاتا ہے، اور ایسا کرنے والے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشتگرد ہوتے ہیں۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ اسی طرح پولیس اور سیکیورٹی اداروں پر صحراؤں میں جو حملے ہوتے ہیں وہ منظر کوئی نہیں دیکھتا۔ ’کوسٹل ہائی وے پر قانون نافذ کرنے والے 14 لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے وہ منظر بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ مناظر پاکستانی میڈیا کو دکھانا میری ذمہ داری نہیں تھی مگر وہ مناظر سامنے نہیں آئے‘۔
انہوں نے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ واٹر کینن تو فرانس اور برطانیہ میں بھی استعمال ہوتے ہیں مگر ان احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مین اسٹریم کو ہمدردی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہاں مظاہرے کرنے کا حق مظاہرین کا ہے مگر طاقت کا استعمال قانون نافذ کرنے والوں کا حق ہے تاکہ امن و امان بحال کیا جا سکے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ماہ رنگ بلوچ کو جب اسلام آباد پریس کلب کے باہر سوا ماہ احتجاج کرنے دیا گیا وہ کسی نے نہیں سراہا، مگر رات ڈیڑھ بجے جب وہ مین ہائی وے پر رکاوٹ پیدا کرنا شروع ہوئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے راستہ تو کلیئر کرنا تھا اور اس پر تنقید شروع ہوگئی۔
جماعت اسلامی کا احتجاج غزہ کے حوالے سے ہوا اس کی اس طرح کی پروجیکشن کیوں نہیں ہوئی؟
انہوں نے کہاکہ ماہ رنگ بلوچ پر کوئی ایسا تشدد نہیں ہوا جس سے جان جانے کا اندیشہ ہو، صرف پانی پھینکا گیا تو کیا اسے غزہ سے ملانا درست ہوگا، جہاں 9 ہزار بچے شہید ہوئے، 40 ہزار عام افراد شہید ہوئے اور صہیونی ریاست کی بربریت ساری دنیا نے دیکھی۔
بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ مزاکرات کرنا یا طاقت کا استعمال ریاست کے دو طریقے ہیں۔ پہلے تو نتائج پر بات ہونی چاہیے کہ مطلوبہ نتائج کیا ہیں؟
انہوں نے کہاکہ کیا ریاست میں فری موومنٹ ہونی چاہیے جس کے تحت معاشی اور تجارتی سرگرمی ہونی چاہیے یا نہیں ہو نی چاہیے۔ جب ان دو سوالوں کا جواب مل جائے گا تو پھر ریاست فیصلہ کرے کہ کرنا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں میں مغل بادشاہ نہیں تھا جو گندم کی درآمد و برآمد کا حکم دے دیتا، انوار الحق کاکڑ
’اب اگر کوئی گروہ بڑے بڑے مظاہرے کررہا ہو، احتجاج کے ذریعے مطالبات سامنے رکھ رہا ہو تو ان سے ریاست کو مذاکرات کرنے چاہییں کیونکہ وہ پرامن جدوجہد کرکے بات سامنے لا رہے ہیں۔ مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ 20 سے 25 لوگوں کے گروہ نکل کر لوگوں پر حملے کررہے ہیں اور سرکاری تنصیبات کو تباہ کررہے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب ایسے میں کس سے مذاکرات کیے جائیں۔ مذاکرات کے لیے دوسری سائید کا راضی ہونا بھی ضروری ہے‘۔
دنیا میں کبھی کسی نے علیحدگی پسندوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے
انہوں نے کہاکہ بی ایل ایف کے سربراہ اللہ نظر نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر آپ نو آبادیاتی پاور ہیں اور ہماری سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کو بلائیں اور یہاں سے جانے کا وقت اور تاریخ دیں تو بات کریں گے۔
انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ یقیناً اتنی سادہ صورتحال نہیں ہے، دنیا میں کسی سینٹرل اتھارٹی نے علیحدگی پسندوں کے سامنے سرنڈر نہیں کیا، چاہے وہ یورپ ہو یا کوئی اور براعظم، تو پھر پاکستان میں کون سی انوکھی بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پرامن لوگوں پر تشدد نہیں ہونا چاہیے، بات چیت سے ہی مسائل کا حل نکالنا چاہیے مگر جب لوگ پرتشدد ہو جائیں تو پھر بات کس سے ہوگی۔
’عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی میں حکومت کردار ادا کرے‘
عمران خان کے حوالے سے سوال ہر انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ مقبول لیڈر دنیا بھر میں انتخابی بادشاہت قائم کرتے ہیں۔ حکومتوں کو سروس ڈیلیوری کرنی ہوتی ہے۔ سماجی خدمات، سیکیورٹی اور معاشی بہتری ہونی چاہیے اور اسی پر حکومتوں کو دیکھا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں عمران خان سے متعلق مثبت رائے رکھتا تھا مگر اب میری رائے مختلف ہے، انوارالحق کاکڑ
انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں کارکردگی کے بجائے سیاسی خواب بیچے جاتے ہیں۔
موجودہ تنازع میں اسٹیبلمنٹ پیچھے ہٹے گی یا عمران خان؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تیسرا فریق موجودہ حکومت ہے اس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس سوال پر کہ محسن نقوی کیسے وزیر داخلہ بنے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس میں بھی موجودہ حکومت اور نظام کی مرضی شامل تھی ورنہ وہ بالکل وزیر داخلہ نہ بنتے۔ ’وہ کسی جماعت کا حصہ نہیں مگر ان کی قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ محسن نقوی کی پیپلزپارٹی کی قیادت سے قربت بھی واضح ہے‘۔