اگر تو اس ملک میں انصاف کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہوتا، شیر اور بکری ایک گھاٹ ہی پر پانی پی رہے ہوتے، میزان عدل کے دونوں پلڑے برابر ہوتے، قاضی شہر کے قصیدے پڑھے جارہے ہوتے اور شاہ و گدا کے حقوق یکساں ہوتے تو اس دیس کے منصف و انصاف کا شہرہ دنیا بھر میں ہوتا۔ ایک زمانہ ہمارے ایوان عدل کی مثالیں دے رہا ہوتا۔ ہم عدل کی کسوٹی پر اقوام عالم میں سب سے ممتاز ہوتے تو بے شک آپ قاضیوں ہی نہیں ان کی نسلوں کو خلعت فاخرہ سے نوازتے، ان پر اشرفیاں لٹاتے، ان کے لیے خزانوں کا منہ کھول دیتے۔ کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ حکومت کا گریبان پکڑے، کسی میں جرأت نہیں ہوتی حکومت وقت سے کوئی سوال کرے۔
اگر تو قومی خزانہ اشرفیوں سے معمور ہوتا، معاشی ترقی اپنے عروج پر ہوتی۔ ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھ چکا ہوتا، ایک فلاحی مملکت یہاں پر تخلیق ہو چکی ہوتی، آجیر اور اجیر کی زندگی خوشحال ہوتی، کراچی اسٹاک، امریکی مارکیٹ کو آنکھیں دکھا رہی ہوتی، آئی ایم ایف گھٹنوں کے بل ہم سے تعاون کا خواستگار ہوتا، ورلڈ بینک ہمارے در کے چکر لگا رہا ہوتا، دنیا کی مضبوط معیشتوں میں ہمارا شمار ہوتا، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں یونیورسٹی، ہسپتال اور سڑک بن چکے ہوتے، تو پھر آپ ججز کی تنخواہ بڑھاتے تو بات سجتی بھی اور بنتی بھی۔
ئی بھی پرھیں:خان کی ڈیل ہو گئی؟
اگر تو اس ملک میں غربت ختم ہو چکی ہوتی، مزدور نان شبینہ کا محتاج نہ ہوتا، کم سے کم اُجرت اطمینان بخش ہوتی، بجلی کے نرخ کم ہو چکے ہوتے، گیس کی فراہمی یقینی بن چکی ہوتی، بیماروں کو مفت ادویات فراہم ہو رہی ہوتیں، بھوکوں کو روٹی مل چکی ہوتی، ناداروں کی جھولی بھر چکی ہوتی، بھوک مٹ چکی ہوتی، مفلسی دَم توڑ چکی ہوتی، تعلیم سے محروم اڑھائی کروڑ بچے اسکول تک پہنچ چکے ہوتے، لغت و فرہنگ ست لفظ افلاس حرف غلط کی طرح مٹ چکا ہوتا، بنیادی خوارک سب کو مل رہی ہوتی، صحت کی سہولیات سب کی دسترس میں ہوتیں تو آپ ججز کی تنخواہیں چاہے جتنی مرضی بڑھا دیتے کوئی سوال نہ کرتا، کوئی جواز نہ پوچھتا، کوئی اختلاف نہ کرتا۔
آگر تو یہاں نچلی عدالتوں کی حالت بہتر ہو چکی ہوتی، التوا میں پڑے لاکھوں مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، سپریم کورٹ میں 60 ہزار مقدمات نمٹائے جا چکے ہوتے، سائلیں انصاف کی بروقت فراہمی پر جشن منا رہے ہوتے، عدالتوں میں رشوت کا کاروبار بند ہو چکا ہوتا، اںصاف دینے والے کسی دباؤ میں آئے بغیر فیصلے سنا رہے ہوتے، جلیوں میں تمام کے تمام بے گناہ قیدی رہا ہو گئے ہوتے ۔ عدالتوں میں انسانوں کی تذلیل پر قدغن لگ چکی ہوتی، ہر شخص نظام انصاف سے مطمئن ہوتا، ہر شخص قاضی شہر کے قصیدے پڑھ رہا ہوتا اور حکومت ان کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ کرتی تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں:بھارتی صحافی نیانیما باسو، مودی اور بریانی
اگر تو اس ملک میں عدلیہ کو اجتماعی سیاسی رشوت دینے کی پہلے روایت نہیں ہوتی، حکمران میزان انصاف اپنے حق میں جھکانے کی عادتِ بد میں مبتلا نہ ہوتے۔ ہماری سیاست میں عدلیہ اتنی مخل نہ ہوتی، ہماری عدلیہ کے سیاسی فیصلوں کی تاریخ اتنی گھناؤنی نہ ہوتی، عدالتوں میں آئین کو از سر نو تحریر کرنے کی رسم نہ ہوتی، عدلیہ ہر ڈکٹیٹر کو نظریہ ضرورت کے تحت ریلیف دینے کی عادی نہ ہوتی، سیاسی حکومتوں کے تختے الٹنے کی ہمارے ہاں کوئی روایت نہ ہوتی، تو پھر چاہے آپ قاضیان کرام کو جس مرضی اعزاز و اکرام سے نوازتے کسی نے آواز نہیں بلند کرنی تھی۔
اگر تو اس ملک ے وکلا کے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے، اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے کو عدالتوں کے باہر پھٹوں پر نہ بیٹھنا پڑتا، اگر وکلا کے سیاسی استعمال پر پابندی لگ چکی ہوتی، 12 اکتوبر جیسے واقعات کی عدالتی توثیق بند ہو چکی ہوتی، 12 مئی کے سانحے میں قتل وکلا کے خون ناحق کا حساب ہو چکا ہوتا، انصاف فراہم کرنے والوں کو انصاف مل چکا ہوتا تو پھر اگر حکومت ججز کی مراعات میں اضافہ کرتی تو کسی نے کچھ بھی نہیں کہنا تھا۔
یہ بھی پرھیں:فیصلہ ہونے والا ہے
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں 2 وقت کی روٹی کا حصول عوام کا مقصد حیات بن چکا ہے، خط افلاس تلے آنے والوں میں ماہانہ لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کے بل سوہانِ روح بن چکے ہیں۔ بچوں کی اسکول فیس ان کی تعلیم میں سب سے بڑی روکاٹ بن رہی ہے۔ بیمار ادویات کے حصول کے لیے مر رہے ہیں۔ بیٹیوں کی شادیوں کے لیے لوگ گردے بیچ رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر شے مہنگی ہو چکی ہے، ایسے میں فقط ایک شے ارزاں ہے، اور وہ انسانی جان ہے۔
ایک زمانہ تھا وکلا نے نعرہ لگایا تھا کہ ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘۔ اس وقت کسی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ریاست صرف ججز کے لیے سگی ماں جیسی ہوگی اور غریب عوام سے اس کا رویہ سوتیلی ماں کا سا ہوگا۔
خود سوچیے کہ ججز کی تنخواہوں میں ہاؤس رینٹ یا جوڈیشل الاونس کے نام پر 12 سے 14 لاکھ روپے کے اضافے کا اعلان ایک عام مزدور پر بجلی بن کر گرا ہوگا کہ جس کی کل آمدنی کم از کم 37 ہزار روپے مقرر کی گئی اور وہ کمائی اس کو کام ختم کرنے کے بعد ملتی ہے۔ اس تنخواہ میں اس نے گھر چلانا ہے، روٹی کھانی ہے، بچے پڑھانے ہیں، دوائی خریدنی ہے، بجلی کا بل دینا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے جن کے ہاں لاکھوں مقدمے فیصلے کے منتظر ہیں۔ تاریخ اس بات پر قہقے ضرور لگائے گی کہ کام نہ کرنے والوں پر ہُن کی یہ برسات شاید چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ہم کوئی غلام ہیں؟
حق یہ ہے کہ ن لیگ نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سیاسی رشوت کے بعد فیصلے ان کے حق میں ہوں گے۔ یہی ثاقب نثار کو ترقی دیتے ہوئے بھی سوچا گیا تھا۔ اسی سوارخ سے پہلے بھی ڈسا گیا تھا۔ میں نجومی تو نہیں لیکن یاد رکھیے کل کو ن لیگ کا تختہ انہیں ججز میں سے کوئی الٹے گا جس کی تنخواہ میں عوام کا خون چوس کر ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے۔
حکومتوں کو سیاسی مقدمات کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر یہ سمجھنا چاہیے کہ سونے کی ججز جب کوڑی کا انصاف نہیں دیتے تو انعام کے نہیں سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔