سینیٹر وقارمہدی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاقات کے اجلاس میں سینیٹر عمر گارگیج اور سینیٹر پلوشہ خان کی تحاریکِ استحقاق پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں سینیٹرعمرگارگیج نے بتایا کہ اپنے حلقے کے ایک افسر کے تبادلے کے عوامی نوعیت کے معاملے پر انہیں ایف بی آر کے متعدد چکر لگانے پڑے، چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت کی کہ سفارش کرنا یا کروانا قانون کے تحت مس کنڈکٹ میں آتا ہے، تاہم محکمے نے ہارڈشپ کمیٹی قائم کر رکھی ہے جو جائز درخواستوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، سی ڈی اے تحلیل کرنے کی ہدایت
سینیٹر علی جیسر نے کہا کہ چھوٹے گریڈ کے افسران کو دوسرے صوبے میں بھیجنا ان کے لیے نوکری چھوڑنے کے مترادف ہے، انہوں نے کہا کہ یہ طرزِ عمل عوامی نمائندوں تک عوامی رسائی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ کسی کرپٹ افسر کی سفارش نہیں کی جائے گی مگرغریب ملازمین کو اس نہج تک نہ پہنچایا جائے کہ وہ ملازمت چھوڑ دیں، انہوں نے کراچی کے بولٹن مارکیٹ میں رینجرز کی مبینہ زیادتیوں کی انکوائری کا بھی مطالبہ کیا، جس پر چیئرمین کمیٹی نے رپورٹ طلب کرنے کی ہدایت دی۔
مزید پڑھیں: ایف پی سی سی آئی کا ٹیکس فراڈ پر ایف بی آر کو دیے گئے گرفتاری کے اختیارات مؤخر کرنے کا مطالبہ
اجلاس میں چیئرمین سی ڈی اے کی غیر حاضری پر بھی برہمی کا اظہار کیا گیا، ارکان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے فون کالز کا جواب نہیں دیتے اور نہ ہی جواباً کال کرتے ہیں، سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ایک ہی شخص چیئرمین سی ڈی اے اور کمشنراسلام آباد کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہے، اور یہ انتظامی طور پر ملک کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔
سینیٹر پلوشہ خان نے پارلیمنٹ لاجزمیں صفائی کے ناقص انتظامات اورچوہوں کی بھرمارپرشدید تحفظات کا اظہار کیا، کمیٹی نے سی ڈی اے کی جانب سے شمیم اخترپلاٹ کیس میں مس رپورٹنگ اورعدالت کے فیصلے پرعملدرآمد کے بجائے اعتراضات فائل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں چیئرمین سی ڈی اے کو طلب کر لیا۔