سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کے استدعا مسترد کر دی

منگل 27 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ابھی کوئی ٹرائل شروع نہیں ہوا صرف تحقیقات ہو رہی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں وقت لگتا ہے، ملزمان کو پہلے وکلا کی خدمات لینے کا وقت ملے گا، ٹرائل شروع ہونے سے پہلے تفتیش کی کاپیاں فراہم کی جائیں گی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کچھ ہوا تو مجھے فوری آگاہ کیا جائے، میں آئندہ ہفتے سے دستیاب ہوں گا، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ فوری کسی کا ٹرائل نہیں ہورہا، ہم اسے مثبت دیکھ رہے ہیں، اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں۔

وکیل عابد زبیری کے دلائل

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بنچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت کی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے پر درخواست داٸر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کی درخواست کو نمبر لگ گیاہے؟ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آٸی، اچھے دلاٸل کو ویلکم کیا جائے گا، جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔

  چیٸرمین پی ٹی آٸی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل اور ججز کے ریمارکس

چیٸرمین پی ٹی آٸی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔

وکیل تحریک انصاف نے عدالت کو اپنے دلائل میں بتایا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

جس پر جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟

آج کے دن تک 2 ڈی 2 کا ہی اطلاق ہوا ہے

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2 ڈی ون لگائی گئی ہے یا 2 ڈی 2 ؟  کل کے بعد اسی معاملے کی وضاحت ضروری ہو گئی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک سیکشن 2 ڈی 2 لگائی گئی ہے، سیکشن 2 ڈی 1 کا اطلاق بعد میں ہو سکتا ہے۔ آج کے دن تک 2 ڈی 2 کا ہی اطلاق ہوا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایف بی ایل ای اور ڈسٹرکٹ بار کیس کے فیصلے سویلین کا فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ اپلائی کرتا ہے، کیسے تعین ہوگا کہ ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہوگا یا ملٹری کورٹس میں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق، الگ وجوہات تھیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایف بی این کیس کہتا ہے کہ کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہوگا، جس پر ٹرائل ہوگا، وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہوا میں بات کر رہے ہیں 2 ڈی 2 کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں اس پر معاونت کرنی ہے، جسٹس منیر اختر نے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہ ہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل 175 (3) جوڈیشل اسٹرکچرکی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں، یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے، بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 (3) کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے۔

انہوں نے کہاکہ سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی، ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا، آرمی سپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا، عزیر بھنڈاری نے سیکشن ٹو ڈی پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ  کر دیا گیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز

وقفہ سماعت کے بعد جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ جی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں ہے، ایکٹ میں ترمیم کےذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں،2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتاہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، سقم قانون میں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔

شاعر احمد فراز کے کیس کا حوالہ

عزیر بھنڈاری نے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام لگاتھا مگر ان جو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا، آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے۔

اٹارنی جنرل ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو تمام والدین کے لیے فائدہ مند ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا، ان مقدمات میں ملزمان پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین ہے، اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیئے، صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہوگا ملزم کون ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے، جبکہ درخواست گزار زمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کروا دیے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل اور ججز کے ریمارکس

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ آپ ہمیں مکمل حقائق دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں نے تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کردی ہیں، 9 مئی کا واقعہ جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کا عمل شروع ہوا، ساری کارروائی کا بیشتر حصہ رولز میں موجود ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کا طریقہ اور حقوق سے متعلق تفصیل بتاونگا، اٹارنی جنرل نے سفید فائل چیف جسٹس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے۔ اہلخانہ کی زیرحراست افراد سے ہفتہ کی بنیاد پر ملاقات ہوسکتی ہے، اہلخانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دے کر ملاقات کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جیلوں کادورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو اہلخانہ سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، ہر ملزم کو بات کرنے کےلئے کچھ منٹس دیے جاتے ہیں، آپ نے خود کہا ملزمان پر ابھی الزامات نہیں لگائے گئے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ ملزمان پر چارج نہیں تو انہیں نامزد کیسے کیا گیا؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کو خوراک کی فراہمی کا کوئی ایشو نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سادہ سوال ہے کیوں حراست میں موجود لوگوں کی فہرست بپلک نہیں کر دیتے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی اپنے والدین سے بات ہو جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دییے کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے، عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا، صحت کی سہولیات سب زیر حراست ملزمان کو مل رہی ہیں ڈاکٹرز موجود ہیں، صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں، ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی، ان کی شکایات کا ازالہ ہو گا۔

وکلاء اور صحافی عمران ریاض کا ذکر

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں، عمران ریاض لاپتہ ہیں، کیا عمران ریاض آپ کی تحویل میں نہیں ہیں؟ عمران ریاض کو تلاش کریں اور بازیاب کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران ریاض ہماری تحویل میں نہیں ہے۔ وفاقی حکومت عمران ریاض کی بازیابی کیلئے مکمل تعاون کررہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہاکہ صحافی عمران ریاض خان ہماری حراست میں نہیں ہیں۔ ریاست انکی بازیابی کے لیے جو بھی معاونت درکار ہوئی فراہم کریگی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا انکی بازیابی کے لیے کوشش کریں تاکہ وہ عید اپنے گھر والوں کیساتھ گزار سکیں۔

سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے فون پر ایک میسج موصول ہوا جس میں مجھ پر الزام تھاکہ میں عمران ریاض کی خاطر کچھ نہیں کر رہا، اس طرح کی حرکات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے، ہم اب عید کے بعد ملیں گے، عید کے بعد پہلے ہفتے میں بتائیں گے کہ کیس کی سماعت کب ہو گی، فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق فی الحال حکم امتناع جاری نہیں کررہے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ حکم کر دیں کہ اس کیس کے دوران کسی سویلین کا ٹرائل نہ ہو، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام افراد صرف تحویل میں ہیں تحقیقات ہو رہی ہیں، کسی کو سزائے موت سنائی نہیں جا رہی، ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کا کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا، نہیں معلوم کہ اگلے دو ہفتے تک تحقیقات کہاں تک پہنچیں گی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کم از کم اٹارنی جنرل کی اسٹیٹمنٹ کو حکمنامے کا حصہ بنایا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی تحویل میں افراد کو وکیل کا حق دیا جائے گا، اگر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو مجھے اگلے ہفتے میں آگاہ کریں، ہر ایک کا خیال رکھیں، بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان

‏ واضح رہے ‏سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کر دی، اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا، صرف تحقیقات ہو رہی ہیں، جس پر درخواست گزار وکلاء نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل کے اس بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، کیونکہ اٹارنی جنرل کا بیان ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے متضاد ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ٹرائل جاری ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا دعویٰ ہے کہ نہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp