جمعرات 5 جنوری 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل حافظ سید عاصم منیر اس وقت مملکت سعودیہ عربیہ کے دورے پر ہیں، پاک فوج کی قیادت سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پہلا بیرونی دورہ ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب پاکستان کو داخلی اور خطے میں رونما ہونے والی بعض بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ 

کہنے کو تو پاکستان کا قیام 1947کو عمل میں آیا مگر برصغیر اور سرزمین حجاز کے مسلمان اخوت کے جس رشتے میں بندھے ہیں، اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، تاہم اگر ماضی قریب سے ان تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو خاصی حوصلہ افزا تاریخ سامنے آتی ہے۔ مثلاً سنہ 1940 میں ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز کراچی کے دورے پر آئے جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

اسی دورے نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں اور سعودی عرب کے درمیان گہرے اور مضبوط رشتے کی بنیاد رکھی۔

جدہ میں پاکستان کے قونصلیٹ جنرل میں تعینات رہنے والے ارشد منیر کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلق کی داغ بیل اس وقت پڑی جب 1946 میں قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا ایک وفد اقوام متحدہ بھیجا جہاں سعودی عرب کے وفد کے سربراہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے تحریک پاکستان کے وفد کو نہ صرف اقوام متحدہ میں متعارف کروایا بلکہ اقوام متحدہ میں مسلمانوں کے علیحدہ ملک کی تحریک اور قربانیوں کو اجاگر کیا۔

قیام پاکستان کے بعد سعودی عرب پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور 1951 میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات ہر دور میں مضبوط اور مستحکم رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلق ہمیشہ مضبوط رہا۔

پاکستان میں اہم مقامات اور شاہراہوں کو سعودی سربراہان مملکت سے منسوب کیا گیا جو کہ دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات کی ایک زندہ مثال ہے۔

کراچی کی پہلی ہاؤسنگ سوسائٹی سعود آباد کے علاوہ  شاہ فیصل کالونی، فیصل ٹاؤن شاہراہ فیصل، اسلام آباد کی تاریخی مسجد فیصل مسجد ہو یا لائل پور کا نیا نام فیصل آباد، سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات کی اہمیت کے طور پر یہ نام سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے نام سے منسوب کیے گئے۔

سنہ 1960 میں صدر پاکستان ایوب خان تین روزہ دورے پر سعودی عرب گئے جہاں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس دورے کے چند سال بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ دفاعی تعاون کی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان کو سعودی عرب نے مختلف مواقع پر معاشی تعاون فراہم کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو مزید وسعت ملی اور برادرانہ تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے سعودی فرمانرواں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی تعاون تنظیم کو متحرک کر کے عالمی سطح پر ایک نئے افق پر لے گئے۔

دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات رہے ہیں اور متعدد مواقع پر سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان کی طرف معاشی تعاون کا ہاتھ بڑھایا بلکہ اخلاقی حمایت بھی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ رہی۔

90 کی دہائی میں سعودی عرب نے تاخیر سے ادائیگی پر پاکستان کو تیل فراہم کیا جس سے پاکستان کو اس وقت معاشی مشکلات سے نکلنے میں آسانی ہوئی۔

1998 میں پاکستان کو ممکنہ طور پر معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اس وقت سعودی عرب نے پاکستان کو یومیہ 50 ہزار بیرل تیل فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی، جس سے پاکستان کو مالی بحران سے نکلنے میں مدد ملی۔

پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات سیاسی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی قائم ہیں۔ پاکستان میں 2005 میں ہولناک زلزلہ آیا تو سعودی حکومت نے پاکستان کو سب سے زیادہ امداد فراہم کی، جبکہ 2006 میں پاکستان نے شاہ عبد اللہ کو اعلیٰ سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا۔

سعودی عرب پاکستان کے لیے تیل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کو 2013 اور 2018 میں جب معاشی بحران کا سامنا رہا تو سعودی قیادت نے پاکستان کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا۔

سنہ 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام کا اعلان کیا گیا اور سابق وزیراعظم عمران خان کو تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ’مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp