آئی بسنت پالا اڑنت

بدھ 8 مارچ 2023
author image

آمنہ سویرا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بسنت کا تہوار اس موسم میں آتا ہے جب فطرت نیا چولا بدلتی ہے ۔ دھرتی اپنا پیرہن تبدیل کرتی ہے ۔ زندگی نئی کروٹ لیتی ہے اور درختوں پر نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ ہر طرف ہریالی اور سبزہ نظر آتا ہے۔ اس سحر انگیز کیفیت کو ہر ذی روح محسوس کرتا ہے اور یہ موسم خوشیوں بھرے تہواروں کا موسم ہے۔

شمالی برصغیر بالخصوص سرحد کے اس پار کے مقامی اور روایتی تہواروں میں بسنت کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس خطے میں بسنے والی ہندو ، سکھ اور مسلمان تینوں قومیں صدیوں سے اسے مناتی آئی ہیں۔ بسنت کو مخصوص انداز سے منانا یہاں کی ثقافت ہے جب کہ ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں موسم بہار کو جشن نو روز کے نام سے منایا جاتا ہے۔

بسنت کی بات ہو اور لاہور کا ذکر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ شہر کی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کروانے میں اس تہوار کا بڑا ہاتھ ہے۔ آسمان میں اڑتی ہوئی رنگ بہ رنگی پتنگیں، شہر بھر میں جشن کا سماں، خوشیاں بکھیرتا ہوا ایک میلے کا سا منظر اب بھی لاہور کے باسیوں کی یاداشت میں محفوظ ہو گا۔

موسم بہار کی آمد سے ہفتوں پہلے گلیوں میں ڈور کو رنگ بہ رنگا مانجھا لگانے والوں کا کام بڑھ جاتا، بازاروں اور گھروں میں پتنگ ساز کاغذ اور بانس کی تیلیوں سے مختلف شکلوں کی خوب صورت پتنگوں کے شاہکار تخلیق کرتے ۔

شہر میں ایک معاشی سرگرمی شروع ہو جاتی جس سے اس کار و بار اور تہوار سے جڑے لوگوں کا سال بھر کا خرچ نکل آتا۔

لیکن وقت نے کروٹ بدلی اور خوشیوں کو کسی کی نظر کھا گئی۔ مذہبی عصبیت پسند جو ثقافت اور شریعت کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے، بسنت کی عداوت میں خود ساختہ تاریخی حوالے پیش کرنے لگے۔ اور ایک مقامی موسمی تہوار کو ہندوانہ، غیر شرعی اور غیر اسلامی تہوار قرار دے کر اس کی مخالفت ہونے لگی ۔

دھاگے کی ڈور کی جگہ کیمیکل ڈور نے لے لی، اور اس سے اڑتی پتنگوں نے معصوم شہریوں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنا شروع کر دیے۔

تو دوسری جانب ہوائی فائرنگ، چھتوں سے گر کر جانیں ضائع ہونے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا۔

بسنت منانے والوں کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے نے جہاں اس تہوار کے مخالفین کے دلائل کو مزید مضبوط کیا، وہیں انتظامیہ پر دباؤ میں بھی اضافہ ہونے لگا کہ اس تہوار کو عام شہریوں کے لئے محفوظ بنانے کے اقدامات کیے جائیں۔

مصلحت کی ماری صوبائی حکومت نے بجائے ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف ٹھوس اقدام کے، آسان حل یہ ڈھونڈا کہ دو ہزار نو میں اس تہوار کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا۔

وہ وقت بھی آیا جب پتنگ رکھنا، بیچنا اور اڑانا، قابل دست اندازی پولیس جرائم قرار دیے گئے۔ محبت ، خوشی اور گرم جوشی کی علامت بسنت کے دن پولیس اہل کار سیڑھیاں لیے گلیوں میں گھومتے دکھائی دیتے کہ پتنگ بازوں کو موقع واردات سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جا سکے۔

مسئلے کا حل یہ نہیں تھا کہ پتنگ بازی پہ پابندی لگا دی جاتی بل کہ ضرورت اس امر کی تھی کہ کیمیکل ڈور، دھاتی تار بنانے ، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں مقرر کی جاتیں۔ ہوائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی۔ لیکن اس سب کی بجائے مذہبی قدامت پسندوں کو خوش کرنا زیادہ منفعت کا سودا تھا کہ اس سے سیاسی مفاد بھی وابستہ تھا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں ہی دس لاکھ سے زائد افراد پتنگ سازی کی صنعت سے براہ راست جڑے ہوئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر پتنگ ساز گھریلو دست کار تھے جن میں ایک غالب اکثریت خواتین کی تھی۔

بسنت پر پابندی نہ صرف ہزاروں خواتین کو بے روز گار کر گئی بل کہ اس نے دیگر شعبوں جیسے بانس، دھاگا، اور کاغذ کی صنعتوں کو بھی متاثر کیا۔ بد قسمتی سے غریب پتنگ ساز معاشرے کا سب سے مغلوب طبقہ تھا، جو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں جانتے تھے اور نہ ہی ان میں اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی استطاعت تھی ۔

حکومت وقت نے اس تہوار کے اصول وضع کرنے کی بجائے اس پر مکمل پابندی لگانے کو ترجیح دی، جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 18 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

پتنگ سازی کی صنعت اور اچانک پابندی کی وجہ سے، گھر کی چار دیواری میں بیٹھی پتنگ ساز خواتین اپنی روز مرہ آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اچانک روز گار چھن جانے کی مشکل میں مبتلا پتنگ سازوں اور ان کے خاندانوں کو کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے لاکھوں ہنرمندوں کے گھروں کے چولہے بند ہوئے، ان کے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہو گئے اور انہیں روزگار کے دوسرے مواقع ڈھونڈنے کے لیے آخر کار گھروں سے نکلنا پڑا۔

پتنگ بازی کو پاکستان میں شجر ممنوعہ بنا دیا گیا، مسئلے کا کوئی ٹھوس اور پائیدار حل نکالنے کی بجائے لوگوں سے ایک سستی تفریح ہی چھین لی گئی۔

تقسیم در تقسیم کے شکار معاشرے کو جوڑنے رکھنے والے تہوار اب ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ بہار اب کے بھی آئی ہے، مرجھائے ہوئے درختوں کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں لیکن انتہا پسندی کے منظر دیکھنے والا آسمان اب بھی سُونا ہے۔ اب یہاں بسنت نہیں ہوتی ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آمنہ سویرا ایک کارپوریٹ بینکر اور فری لانس رائٹر ہیں۔ روزمرہ زندگی میں پیش آئے معاشرتی رویوں کے مشاہدے کو انسانیت کی کسوٹی پر پرکھ کر جو سامنے آتا ہے، لکھ ڈالتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp