الیکشن 2024 نے ملک کی مقتدرہ کو ایک نئے جنجال میں ڈال دیا۔ یا پھر یہ کہ ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کیے رکھنا ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ سنہ 2008 کے انتخابات سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو قتل ہوگئیں مگر آصف زرداری نے ‘پاکستان کھپے’ کا نعرہ لگا کر الیکشن میں جانے کا فیصلہ کیا اور فوجی آمر پرویز مشرف کو بڑے اچھے انداز میں گھر کا راستہ دکھایا۔ اس وقت ملک شدید ترین دہشت گردی اور بدترین بجلی کے بحران کی لپیٹ میں تھا۔ کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
کوئی ملک دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکل رہا ہو تو وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اب استحکام پیدا کرکے ملک کی معیشت اور عوام کی فلاح و بہبود پر کام کرے۔ مگر ہم نے سیاسی عدم استحکام کا راستہ اپنایا۔ میڈیا نے طوفان برپا کر رکھا تھا کہ حکومت آج گئی کہ کل۔ پھر عدلیہ نے منتخب وزیراعظم کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں گھر بھیج دیا۔
مزید پڑھیں
پھر سنہ 2013 کے انتخابات کے بعد ایک سیاسی کھلاڑی کو اسلام آباد میں لا کر بٹھا کر ملک کا کاروبار کا پہیہ جام کردیا گیا۔ اور پاناما کے ذریعے عدلیہ نےایک اور منتخب وزیراعظم فارغ کردیا۔ اس کے بعد سال 2018 میں سیاسی کھلاڑی کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا گیا مگر ایک تاریخی عدم اعتماد کی تحریک نے اسے بھی گھر بھیج دیا۔
اس سے پہلے فارغ ہونے والے وزرا اعظم خاموش رہے اور حالات سے سمجھوتا کر لیا مگر کھلاڑی نے مقتدرہ اور تمام سیاسی جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لینے کا فیصلہ کیا اور وہ اس وقت جیل میں بیٹھا ہے۔ اس الیکشن میں اس کی جماعت اور کارکنوں کے خلاف استعمال ہونے والے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اس کے ووٹر نے ایک واضع پیغام دیا کہ زمانہ تبدیل ہوگیا ہے اب ایسا نہیں چلے گا کہ آپ اپنی مرضی سے جو چاہیں کریں اور عوام آواز بھی نہ اٹھائیں۔
الیکشن نتائج نے لندن سے آئے پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف سمیت پوری جماعت کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز لیگ نے سوچا تھا کہ انہیں پلیٹ میں رکھ کر اقتدار ملنے والا ہے تو پھر فکر کرنے کی کیا ضرورت۔ ادھرتحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنے لیڈر عمران خان اور دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ ووٹ کی صورت میں لینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ الیکشن کے روز نواز لیگ کا ووٹر یہ سوچ کر گھر بیٹھا رہا کہ مقتدرہ نے نواز شریف کو وزیراعظم ہر صورت بنانا ہے تو پھر ووٹ ڈالنے کیوں نکلیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں سب کو حیران کردیا۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے۔
الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے سب سے زیادہ پریشانی نواز لیگ کو لاحق ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ ملک کو درپیش تمام مشکلات کا وزن نواز لیگ اٹھائے۔ ان حالات میں نواز شریف نے مناسب سمجھا کہ وہ وزیراعظم بننے کی بجائے پارٹی کی قیادت اور رہنمائی کریں اور چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم اور اپنی بیٹی مریم کو پنجاب کی وزارت عالیہ دے دیں۔
یا پھر انہوں نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں سیاستدانوں کے پاس کوئی اسپیس نہیں بچی کیونکہ تمام بڑے فیصلے مقتدرہ خود ہی کرے گی تو وہ کیوں معاشی بدحالی کی بدنامی کمائیں۔
ایک بار پھر پی ڈی ایم طرز کی حکومت سنبھال کر مسلم لیگ نواز خود کو اگلے چند سالوں میں ایسی نہج پر لے جائے گی جہاں سے واپسی کا راستہ تلاش کرتے کئی سال لگ سکتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت ایک گہری کھائی میں گری ہے جہاں سے اسے نکالنے کے لیے ایک طویل دورانیے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور آج کی صورت حال میں اگر مقتدرہ اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتیں سبق سیکھیں اور اقتدار کی لالچ کے بغیر مل کر ملک کی میعشت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ملک کے نوجوانوں کو ایک نئی امید دلائیں۔