کیا خئی پشتون رسم و رواج کا لازمی جزو ہے؟

پیر 22 اپریل 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جیو انٹرٹینمنٹ نے ‘خئی’ کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل آن ائیر کیا جس میں خئی کے واقعات کا صرف ایک رخ دکھانے کی کوشش کی گئی۔ ڈرامہ میں کئی معاملات کو حقیقت کے برعکس دکھایا گیا جس سے چینل کی انٹرٹینمنٹ کی ضروریات تو پوری ہو سکتی ہیں مگر تصویر کا مثبت رخ چھپا لیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ ڈرامہ نگار کو موضوع پر عبور حاصل نہ ہو۔ سوشل میڈیا پر پشتون کیمیونٹی بھی اس موضوع کو غلط طریقے سے پیش کرنے پر ڈرامے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔

خئی کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ قبائلی پشتون رسم و رواج کا لازمی جزو ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ خئی لفظ کا لغوی معنی یہ ہے کہ کسی خاندان کا کوئی مرد نہیں بچا۔ مثال کے طور پر کسی خاندان کا حادثہ ہوتا ہے اور فیملی خدانخواستہ ختم ہو جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں خاندان کی خئی ہوگئی، یعنی کوئی نہیں بچا۔ اسی خئی کو میراث یا ملکیت کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے جیسے کسی خاندان کی خئی ہوئی تو ان کے حصے کی ملکیت رشتہ داروں میں باپ دادا کی طرف سے قریبی رشتے داروں کو ملتی ہے۔

خئی کے واقعات زیادہ تر قبائلی معاشرے میں ہوئے ہیں، اس لیے اس غیر انسانی فعل سے انکار کرنا حقائق کی منافی بات ہوگی۔ لیکن قبائلی روایات کے تحت ایسا قبیح فعل سر انجام دینے والوں کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ذاتی طور 21 نومبر 2004 میں علاقہ سراروغہ ساگاڑ میں ایک افسوسناک واقعہ یاد ہے جب بحرین پلٹ شخص کلاج خان اور اس کے 4 معصوم بچوں کو ان کے چچا زاد بھائی نے بے دردی سے قتل کر دیا۔

جس قاتل کے ہاتھوں کلاج خان اور اس کے بچوں کا خون ہوا، اسی شخص کے باپ نے 1972 میں کلاج خان کے والد کو قتل کر کہ اس کے خاندان کی خئی بنانے کی کوشش کی تھی۔ کلاج خان کی والدہ نے علاقہ سراروغہ میں ایک شخص کے ساتھ اس شرط پر شادی کی تھی کہ وہ ان کے اکلوتے بیٹے کلاج خان کی حفاظت کرے گا۔ کلاج خان جوان ہوا تو ان کے ماموں نے ان کو بحرین کا ویزہ دلایا جہاں انہوں نے شادی کرلی اور 4 بیٹے پیدا ہونے کے بعد جنوبی وزیرستان واپس آئے تھے۔

کلاج خان کے خاندان سے جس شخص نے خئی بنائی ان کا مقصد کلاج خان کی جائیداد اور گھر پر قبضہ کرنا تھا کیونکہ خئی کا واحد مقصد کسی خاندان کا مکمل خاتمہ کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ خئی کے بعد اس خاندان کی میراث یا ملکیت پر قبضہ کرنا بھی ہوتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس مقصد کے لیے جن لوگوں نے بھی خئی بنائی ہے وہ جائیداد لینے میں کامیاب نہیں ہوئے اور قبائلی روایات کے تحت نشانِ عبرت بنا دیے گئے۔

مثال کے طور پر کلاج خان کی خئی بنانے والے شخص کے پورے خاندان کو اس واقعے کے بعد قبائلی لشکر نے علاقہ بدر کر دیا تھا جو آج تک اپنے علاقے میں واپس نہیں آسکتے۔ ان کے گھر مسمار اور دیگر املاک جلا دیے گئے تھے۔

ابھی پچھلے دنوں ایک شخص اس واقعے کے بارے میں بتا رہا تھا کہ وہ اسی خاندان کے کسی فرد کے ساتھ کسی دوسرے شہر میں کاروباری لین دین کررہا تھا لیکن جیسے ہی ان کو معلوم ہوا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کلاج خان کے خاندان کی خئی بنائی تھی تو انہوں نے فوراً لین دین ختم کردیا۔ یعنی قبائلی معاشرہ ایسے لوگوں سے کسی قسم کا بھی تعلق نہیں رکھتا۔

خئی تب مانی جاتی ہے جب خاندان میں کوئی ایک بچہ بھی زندہ نہیں بچتا اور بدقسمتی سے پرانے زمانے سے یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ بچیوں کو جائیداد یا خئی میں حصہ نہیں ملتا۔ اس لیے بچیاں زندہ بھی رہیں تو خئی، جائیداد یا میراث میں ان کا حصہ نہیں ہوتا۔ بچیوں کے جائیداد میں حصے پر اب قبائلی معاشرے میں خوشگوار تبدیلیاں آچکی ہیں جن کا ذکر کسی اور دن کیا جائے گا۔

کلاج خان اور بچوں کے جنازے کے وقت ان کی بیوہ نے جنازے میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس وقت حاملہ ہے اور اولاد پیدا ہونے کی صورت میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ میرے بچے یا بچی کا باپ کلاج خان ہی ہے۔

کلاج خان کی بیوہ نے بحرین میں مقیم ایک شخص سے شادی کرلی اور اللہ تعالیٰ نے کلاج خان کی آخری نشانی اولاد نرینہ کی صورت میں عطا کی۔ وہ بچہ اس وقت بحرین میں اپنی والدہ کے ساتھ مقیم ہے۔

خئی کے واقعات محض اس وجہ سے بھی پیش نہیں آئے کہ کسی خاندان نے دوسرے کو بس جڑ سے ختم کرنا تھا۔ 1966 میں ہمارے ساتھ ایک ملحقہ گاؤں میں ایک خاندان نے دوسرے خاندان کی خئی بنائی۔ علاقائی ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے کرداروں کے نام صیغہ راز میں رکھ رہا ہوں لیکن بڑوں سے سنے واقعے کی تفصیل یوں ہے کہ جس خاندان نے خئی بنائی اس خاندان کے ایک فرد کو خئی کا شکار بننے والوں نے قتل کر دیا تھا اور وہ لوگ طاقتور بھی تھے اور بے رحم بھی، لہذا  کمزور حریف نے موقع پا کر گھر کے سارے مردوں کو قتل کر دیا تھا۔

اس خاندان کی ایک خاتون کا تعلق وزیر قبیلے سے تھا جو ناراض ہو کر میکے بیٹھی تھی اور ایک بیٹا بھی ساتھ تھا جنہوں نے بعد میں بچے سمیت شہزادہ وجیہہ الدین کے گھر پناہ لے لی تھی جہاں ان کا بیٹا بڑا ہوا۔ بیٹے کی شادی کے بعد اب ان کا بڑا اور مضبوط خاندان ہے۔

حالانکہ خئی کے اس واقعے کے حوالے سے خئی بنانے والوں کے پاس علاقائی روایات کے مطابق ٹھوس وجوہات تھیں لیکن قبائلی خود احتسابی کے عمل نے ان کو معاف نہیں کیا اور ان کے گھر مسمار کر دیے گئے اور وہ علاقہ بدر بھی کردیے گئے۔

1948 میں علاقہ کاچہ میں ایک خاندان کی خئی بنائی گئی۔ وجوہات وہی قبائلی دشمنی تھی۔ ایک حاملہ عورت زندہ نکلنے میں کامیاب ہوئی اور شہزادہ فضل دین کے ہاں پناہ لے لی۔ اس خاتون نے امیر حمزہ نامی بچے کو جنم دیا جو شہزادہ فضل دین کے لنگر میں بڑا ہوا، شادی کرا دی گئی اور آج اس کا ایک بڑا خاندان بن چکا ہے۔

میں نے خئی کے جتنے واقعات کے بارے میں سنا ہے اس میں 99 فیصد خاندانوں کا کوئی نہ کوئی وارث بچتا نظر آیا ہے اور میں نے اس حوالے سے جتنا سوچا ہے کہ خدا نے اس معاشرے کو نشانیاں دکھانے کی کوشش کی ہے کہ آپ نے خئی بنانے کی کوشش تو کی ہے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

امیر حمزہ کے خاندان کی خئی بنانے والوں کو بھی قبائلی لشکر نے علاقہ بدر کر دیا تھا۔ ان کے گھر مسمار کر دیے تھے۔ خئی کے واقعات میں بچنے والے بچے بڑے ہو کر عموماً اپنے خاندان کے قتلِ عام کا بدلہ بھی لیتے ہیں لیکن آج حالات بدل چکے ہیں اور ایسے ظلم کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

جہاں ایک طرف سوچ میں تبدیلی آئی ہے وہیں قبائلی خود احتسابی نظام کا بھی ہاتھ ہے جو اب بھی اس حوالے سے فعال ہے۔ یہ سچ ہے کہ خئی قبائلی معاشرے کا بالخصوص ایک کڑوا سچ رہا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ خئی بنانے والوں کا ایسا عبرت ناک انجام ہوا ہے کہ ان کے خاندان آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مظالم خئی کے نام سے ہوں یا کسی اور نام سے، تسلسل سے ہورہے ہیں اور کمزور نشانہ بنتے رہے ہیں۔ لیکن بطور ایک قبائلی میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ قبائلی معاشرے میں خود احتسابی کا ایک مظبوط سسٹم بھی موجود رہا ہے جس کی وجہ سے قبائلی معاشرہ کبھی مکمل عدم استحکام کا شکار نہیں ہوا۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp