پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ ہمیں فلسطین کی آزادی کے لیے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں
بنجول، گیمبیا میں 15 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ سربراہی اجلاس غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جاری وحشیانہ فوجی حملوں کے سیاہ سائے میں منعقد ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملوں میں 35 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری سے 20 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ فلسطین میں جان بوجھ کر انسانی امداد سے انکار کیا جا رہا ہے، بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اسے ’قابل تعزیر نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔
’فلسطین کی اقوام متحدہ متحدہ میں شمولیت کی حمایت جاری رکھی جائے‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ نومبر میں ریاض میں ہونے والی مشترکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں دور رس فیصلے کیے گئے، اس سربراہی اجلاس میں ہمیں فلسطین کی آزادی کے لیے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں فوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور محصور لوگوں کے لیے بلا روک ٹوک انسانی امداد کو یقینی بنایا جائے اور تنازعات کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔
اسحٰق ڈار نے او آئی سی ممالک سے کہا کہ وہ فلسطین کی اقوام متحدہ متحدہ میں مکمل رکن کے طور پر شمولیت کی حمایت جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے حصول کے لیے امن عمل کو دوبارہ شروع کرنا چاہئے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطین کی ایک قابل عمل، محفوظ، اور خودمختار ریاست کے قیام کی حمایت کی، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیل کو جوابدہ بنانے کے اقدامات اور فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے ایک طریقہ کار پر بھی غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ او آئی سی کا یہ سربراہی اجلاس ایک نازک موڑ پر منعقد ہو رہا ہے، دنیا کے عوام بالخصوص امت مسلمہ کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن کے لیے او آئی سی کو متحد اور مربوط جواب دینا چاہیے۔
’جموں و کشمیر پر او آئی سی ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ہوگا‘
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے جموں و کشمیر کے تنازع کا حل بھی ضروری ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی توثیق کرتی ہیں، ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام استصواب رائے کے ذریعے اس کے عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔
انہوں نے 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن اور بھارت کے اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کاز کو فروغ دینے کے لیے ہمیں جموں و کشمیر پر او آئی سی ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت اور 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرنے پر او آئی سی کے تمام رکن ممالک کا شکریہ بھی ادا کیا۔
اسحٰق ڈار نے بھارت سے انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کو روکنے اور حریت رہنماؤں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا اور بھارت میں جاری لوک سبھا انتخابات کے دوران ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے پاکستان مخالف بیانات اور اسلامو فوبک بیانیہ میں اضافے کی شدید مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا بھارتی رہنماؤں کی بیان بازی سے مسلمانوں کو پسماندگی اور علاقائی استحکام کو خطرہ ہے، ہندوتوا کے نظریے کا پرتشدد نفاذ بین الاقوامی جانچ پڑتال کی ضمانت دیتا ہے، اقوام متحدہ اور او آئی سی کو صورتحال پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔
’اسلاموفوبیا کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اثرانداز ہونا ہوگا‘
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہمارے درمیان سب سے مضبوط پابند عناصر میں سے ایک توحید اور ختم نبوت پر ہمارا غیر متزلزل اعتقاد ہے مگر بدقسمتی سے اسلام مخالف مواد کی وسیع پیمانے پر دستیابی بین المذاہب تنازعات کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔ انہوں نے سربراہی کانفرنس کے شرکا سے درخواست کی کہ وہ عالمی انفارمیشن نیٹ ورکس اور پلیٹ فارمز بالخصوص گلوبل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اثرانداز ہونے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ گستاخانہ، اسلام مخالف اور اسلام فوبک مواد کے لیے مواد کے ضابطے کی پالیسیوں کے اطلاق کو ہم آہنگ کیا جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے او آئی سی کی طرف سے ایک مشترکہ قرارداد کو اپنانے کی تجویز پیش کی جس میں واضح طور پر او آئی سی میں ایک مرکزی رابطہ گروپ کے ذریعے ان عالمی کارپوریٹس کے ساتھ مشغول ہونے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس قرارداد میں او آئی سی کے اراکین کی جانب سے معیاری پالیسی اقدامات کا ایک مجموعہ بھی شامل ہونا چاہیے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ او آئی سی کی مشترکہ کوششوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا، اس سال 15 مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کی ایک اور قرارداد منظور کی جس میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے ساتھ مل کر اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
’افغان عبوری حکومت کو بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ترغیب دی جائے‘
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ کردار ادا کرنے کے باوجود پاکستان کو سرحدوں کے پار سے بیرونی مالی امداد، اسپانسر اور حمایت یافتہ دہشتگردی کا سامنا ہے، او آئی سی کو اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر دہشتگردی کی تمام شکلوں سے نمٹنے کے علاوہ داعش خراسان اور ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی کو افغان عبوری حکومت کی انسداد دہشتگردی، خواتین کے حقوق اور جامع طرز حکمرانی کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانے کی ترغیب دینی چاہیے، بین الاقوامی برادری کو ضرورت مند افغانوں کو مناسب انسانی امداد فراہم کرنی چاہیے، اس کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد کرنی چاہیے اور علاقائی ’رابطے‘ کے منصوبوں کے جلد نفاذ میں مدد کرنی چاہیے۔
’ترقی یافتہ ممالک اپنے وعدے پورے کریں‘
انہوں نے کہا کہ او آئی سی عالمی اقتصادی ترقی کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں اجتماعی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے وجودی خطرے سے نمٹنا چاہیے، 2022 میں پاکستان میں تباہ کن سیلابوں میں واضح ہے جس سے 34 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے، ترقی یافتہ ممالک کو مشترکہ لیکن تفریق شدہ ذمہ داریوں کے اصول کے مطابق مناسب مالیات، ٹیکنالوجی اور صلاحیت سازی میں مدد فراہم کرنے کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے،۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2 سالہ مدت کے لیے غیرمستقل نشست کا امیدوار ہے، ہمیں او آئی سی کے تمام رکن ممالک کی فعال حمایت کا یقین ہے، ہم اپنی سلامتی کونسل کی اصطلاح کو او آئی سی کی ایک اہم آواز کے طور پر استعمال کرنے کے منتظر ہیں۔