شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے والوں کو کون سے خطرات کا سامنا رہتا ہے؟

منگل 7 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے اور یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔

یہ شاہراہ ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور ہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔

شاہراہ ریشم کا وجود انسانی تخلیقی ہنر کا ایک منظر ہے۔ دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ شاہراہ قراقرم مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کو کون سے خطرات کا سامنا رہتا ہے؟

سنگ لاخ پہاڑوں کو چیر کر بنائی گئی یہ شاہراہ سفری مشکلات کو کم کرنے کا باعث بنی۔ گلگت بلتستان کو پاکستان سے ملانے والا واحد زمینی راستہ کئی دنوں میں طے ہوتا تھا تاہم شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد اب یہ مسافت گھنٹوں میں طے ہوتی ہے جو مسافروں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں مگر یہ نعمت کبھی کبھار زحمت کا باعث بھی بن جاتی ہے، کیونکہ یہ شاہراہ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہے جس کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں۔

بارش ہونے کی صورت میں شاہراہ قراقرم پر لینڈ سلائیڈنگ سے روڈ بند ہونا معمول ہے۔ ’بھاری بارود سے پہاڑوں کی بلاسٹنگ کی وجہ سے پہاڑ سرک رہے ہیں، جس کے باعث کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے‘۔

شاہراہ قراقرم کا راستہ لمبا اور تھکا دینے والا ہے جس کے باعث اکثر ڈرائیورز کو نیند آنے کے باعث بھی حادثات رونما ہوتے ہیں۔

شاہراہ قراقرم کے ایک طرف پہاڑ اور دوسری جانب گہری کھائی اور دریا ہے جس کے باعث حادثات کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

حکومت اور متعلقہ ذمہ داران اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھارہے ہیں؟

شاہراہ قراقرم پر کئی حادثات رونما ہونے کے باوجود متعلقہ ذمہ داران اور حکومت کی جانب سے تعزیتی بیانات کے سوا کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کی سفری مشکلات میں کمی کے لیے اقدامات نہ کرنے کے باعث حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔

چلاس سے تعلق رکھنے والے صحافی مجیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ شاہراہ قراقرم پر حادثات کی شرح بڑھ گئی ہے جس کے باعث لوگ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

انہوں نے کہاکہ روڈ پر سیفٹی گرل نہیں جس کی وجہ سے کسی بھی حادثے کی صورت میں گاڑی گہری کھائی میں گرجاتی ہے اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

شاہراہ قراقرم پر سفر کے دوران مسافروں کو اس کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے کہ دوران سفر سروس نہ ہونے کی وجہ سے کسی سے رابطہ نہیں ہوسکتا۔ ’اگر دوران سفر کوئی حادثہ ہو جائے تو فوری ریسکیو حکام کو بھی اطلاع نہیں مل پاتی جس کے باعث انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‘۔

شاہراہ قراقرم پر آس پاس کوئی اسپتال بھی نہیں جس کی وجہ سے حادثے کی صورت میں لوگوں کو طبی امداد نہیں مل سکتی۔

پبلک روٹس پر چلنے والی کھٹارا گاڑیاں حادثات کی وجہ

اکبر عالم جو اکثر اس روڈ پر سفر کرتے ہیں، نے بتایا کہ اکثر ڈرائیورز نشے میں ہوتے ہیں اور جلد پہنچنے کے لیے اوور اسپیڈ ہوتے ہیں، یہ بھی حادثے کی ایک وجہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی کارکردگی صفر ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی اکثر گاڑیاں ناکارہ ہوچکی ہیں جن سے بارش کا پانی بھی اندر ٹپکتا ہے مگر ان کے مالکان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ کھٹارا گاڑیوں پر 12 سے 16 گھنٹے کی مسافت طے کرنا زندگی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ شاہراہ قراقرم پر لوگ جان کی ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرتے ہیں۔

قراقرم ہائی وے پر 5 سالوں میں کتنی جانوں کا ضیاع ہوا؟

پولیس ریکارڈ کے مطابق شاہراہ قراقرم پر گلگت بلتستان کی حدود میں ہونے والے حادثات میں صرف 5 سالوں کے دوران 49 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

2019 میں 6 ٹریفک حادثات ہوئے جن میں 6 افراد جاں بحق اور 3 زخمی ہوئے، اس کے بعد 2020 میں ہونے والے حادثات کی تعداد 5 ہے جن میں 3 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے۔

2021 میں پیش آنے والے حادثات کی تعداد 11 ہے جن میں 7 افراد جاں بحق اور 23 زخمی ہوئی، اس کے بعد 2022 میں ہونے والے 8 حادثات میں 3 افراد جاں بحق جبکہ 21 زخمی ہوئے۔

2023 میں شاہراہ قراقرم پر 7 حادثات ہوئے جن میں 10 افراد جاں بحق اور 56 زخمی ہوئے، جبکہ رواں سال اب تک 4 حادثات ہوچکے ہیں جن میں 23 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوچکے ہیں۔

حالیہ بس حادثے میں 23 جانوں کے ضیاع کے بعد شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے والوں کے لیے ایک شیڈول جاری کیا گیا ہے مگر خطرات کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ یہاں عوام حکومت سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا سفر کے اوقات کار تعین کرنے سے شاہراہ قراقرم پر سفری مشکلات کم ہو جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp