پراچہ ٹیکسٹائلز، میزان گروپ اور کولا نیکسٹ کے مالک ذوالفقار احمد کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس کوثر سلطانہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ اغوا برائے تاوان کا کیس تھا؟جس پر وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کراچی سے اٹھایا گیا تھا اور لاہور سے ملے ہیں۔
اسسٹنٹ پروسیکیوٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ یہ مسنگ پرسن کا کیس ہے اور ذوالفقار احمد واپس آگئے ہیں، وکیل سرکار نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست میں رینجرز کو فریق نہیں بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کولا نیکسٹ کے مالک کا کراچی میں اغوا، اہل خانہ کا عدالت سے رجوع
جسٹس کوثر سلطانہ نے ریمارکس دیے کہ اسی طرح سے کاروباری لوگ یہاں سےجارہے ہیں، شاید ہم نے غیرملکی مشروبات پینا چھوڑ دی ہے، اگر ایسا کرنا تھا تو رمضان میں کرتے، اربوں روپے کا بجٹ ہے، رینجرز اور پولیس کیا کررہی ہے؟
عدالتی استفسار پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ درخواست گزار کی جانب سے تفتیش کےلیےکوئی نہیں آیا کسی نے کوئی بیان نہیں دیا، جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ ذوالفقار احمد عدالت میں خود پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرائیں گے، فی الحال وہ اس حالت میں نہیں کہ وہ بیان دے سکیں ۔
مزید پڑھیںَ: کولا نیکسٹ کے مالک کے بعد پنجاب سے 2 سینیئر ملازمین بھی اغوا
عدالتی استفسار پر ایس ایچ او کلری پولیس اسٹیشن نے بیان دیا کہ درخواست گزار کے وکلا نے تھانے آکر درخواست دی اور کہا ایف آئی آر نہیں بلکہ عدالت جائیں گے، سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنے سے پہلے تھانے نہیں آئے۔
اس حوالے سے وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ہم مقدمہ درج کرانے گئے تھے پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا، ایس ایچ او کلری نے جواب دیا کہ ہم نے شکایت کنندہ مینجر کا اتھارٹی لیٹرمانگا تھا، عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف آئی آر کے لیے اتھارٹی لیٹر ضروری ہے؟
مزید پڑھیں: کراچی سے اغوا ہونے والے کولا نیکسٹ کے مالک ذوالفقار احمد گھر پہنچ گئے
جسٹس کوثر سلطانہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دن دہاڑے یہ سب ہوا ہے اور آپ کو کچھ پتا نہیں ہے، ایس ایچ او نے جواب دیا کہ قیصر اگر ایف آئی آر کرانے آتے تو زیادہ بہتر ہوتا، جسٹس کوثر سلطانہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کب ’پک اینڈ چوز‘ شروع کردیا کہ کون مقدمہ درج کروائے گا کون نہیں۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ جیسے ہی عدالت کے حکم کے بعد مقدمہ درج کرانے گئے تو مختلف فون کال آنا شروع ہوگئیں، ایس ایچ او کو سب پتا ہے واقعہ کیسے پیش آیا، ذوالفقار احمد عدالت میں پیش ہوکر بیان دیں گے۔
مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا تھانوں میں کاروباری سرگرمیاں فوری ختم کرنے کا حکم
جسٹس کوثر سلطانہ نے حکم دیا کہ بازیاب ہونیوالے ذوالفقاراحمد اب پولیس انوسٹی گیشن جوائن کریں، عدالتی استفسار پر وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں کیونکہ دوبارہ اٹھائے جانے کا خدشہ ہے۔
جس پر عدالت نے پولیس کو تنبیہ دی کہ اگر ان کی حدود میں ذوالفقار احمد کے ساتھ یا ان کی کمپنی کے کسی فرد کے ساتھ کچھ ہوا تو ذمہ داری ایس ایچ او پر ہوگی، ان حالات سے بہتر ہے فورسز نہ ہوتی توزیادہ بہتر تھا اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ۔
جسٹس کوثر سلطانہ کا کہنا تھا کہ پولیس اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمرے تو ہوں گے، درخواست کا مقصد پورا ہوچکا ہے ذوالفقار احمد اب انویسٹی گیشن جوائن کریں، مذکورہ بالا حکم کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ نے صنعتکار ذوالفقار احمد کی بازیابی سے متعلق درخواست نمٹا دی۔