امریکی محکمہ انصاف اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے ایک مقدمے میں شریک بنتے ہوئے مقبول ویڈیو اسنیپٹ شیئرنگ ایپ ’ٹک ٹاک‘ پر بچوں کے آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ (سی او پی پی اے) کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔
ایف ٹی سی کی چیئر پرسن لینا خان نے ایک بیان میں کہا کہ ٹک ٹاک نے جان بوجھ کر اور بار بار بچوں کی پرائیویسی کے ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے جس سے ملک بھر میں لاکھوں بچوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
سی او پی پی اے ویب سائٹس کو والدین کی اجازت کے بغیر 13 سال سے کم عمر کے بچوں کے بارے میں ذاتی معلومات جمع کرنے سے روکتا ہے۔
مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2019 سے ٹک ٹاک نے بچوں کو ایپ استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، والدین کو بتائے بغیر نوجوان صارفین کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ 13 سال سے کم عمر کے صارفین کے لیے ’کڈز موڈ‘ میں بنائے گئے اکاؤنٹس نے ای میل پتے اور دیگر ذاتی معلومات جمع کیں۔
محکمہ انصاف کے حکام کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک اور اس کی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس اکثر والدین کی جانب سے اپنے بچوں کے اکاؤنٹس اور ڈیٹا ہٹانے کی درخواستوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور بچوں کی جانب سے بنائے گئے اکاؤنٹس کی شناخت اور حذف کرنے کی غیر مؤثر پالیسیاں رکھتی ہیں۔
محکمہ انصاف کے ڈپٹی اسسٹنٹ اٹارنی برائن بوئنٹن نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ کارروائی مدعا علیہان کو روکنے کے لیے ضروری ہے جو بار بار جرم کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں، والدین کی رضامندی یا کنٹرول کے بغیر چھوٹے بچوں کی نجی معلومات جمع کرنے اور استعمال کرنے سے روکتے ہیں‘۔
5 سال قبل امریکا نےمیوزیکل ڈاٹ لی نامی ایپ کے خلاف سی او پی پی اے پر مبنی مقدمہ دائر کیا تھا جسے چین میں قائم بائٹ ڈانس نے خرید کر ٹک ٹاک میں ضم کر دیا تھا۔
محکمہ انصاف کے حکام کے مطابق اس کیس کے نتیجے میں ٹک ٹاک کو بچوں کی پرائیویسی ایکٹ پر عمل کرنے کے لیے اقدامات کرنے پڑے۔
امریکی محکمہ انصاف نے ایک ہفتہ قبل بائٹ ڈانس کی جانب سے ایپ کی جبری فروخت کی قانونی درخواست کے جواب میں کہا تھا کہ ٹک ٹاک کے صارفین کا ڈیٹا جمع کرنا اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ بناتا ہے۔
ٹک ٹاک کی جانب سے واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں دائر مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک قانون، جو ایپ کو اگلے سال فروخت کرنے یا امریکی پابندی کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے، آزادی اظہار کے ترمیم شدہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے اپنی فائلنگ میں لکھا ہے کہ ‘امریکا میں ٹک ٹاک کی وسیع رسائی کو دیکھتے ہوئے چین کی جانب سے ٹک ٹاک کے فیچرز کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو امریکی مفادات کو نقصان پہنچانےاور قومی سلامتی کے لیے انتہائی گہرا خطرہ سمجھتی ہے‘۔
ٹک ٹاک کمپنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں امریکامیں ایپ کے صارفین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹک ٹاک پر پابندی 170 ملین امریکیوں کی آواز کو خاموش کردے گی جو پہلی ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں، حکومت نے کبھی بھی اپنے دعوؤں کے ثبوت پیش نہیں کیے، بشمول جب کانگریس نے یہ غیر آئینی قانون منظور کیا تھا۔
اس سال کے اوائل میں صدر جو بائیڈن کی جانب سے دستخط کیے گئے ایک بل میں ٹک ٹاک کو غیر چینی خریدار تلاش کرنے یا امریکی پابندی کا سامنا کرنے کے لیے جنوری 2025 کے وسط کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔
بائیٹ ڈانس نے کہا ہے کہ اس کا ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس لیے یہ مقدمہ، جو ممکنہ طور پر امریکی سپریم کورٹ میں جائے گا، پابندی سے بچنے کا واحد آپشن ہے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایکٹ 19 جنوری 2025 تک ٹک ٹاک کو بند کرنے پر مجبور کر دے گا‘۔