چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اسلام آباد پولیس پراپرٹی مافیا کے ساتھ مل کر قبضے کرواتی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکیورٹی انچارج عمر سلطان کی بازیابی سے متعلق ان کے والد کی درخواست پر سماعت کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے ٹیکس عائد ہونے سے کیا پاکستان میں پراپرٹی کا کاروبار ختم ہو جائے گا؟
دوران سماعت، درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے عدالت کے حکم پر ایس پی کو ہر ایک چیز شیئر کی، گزشتہ سماعت پر ایس پی ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوئے اور ساری ذمہ داری لی۔
اسٹیٹ کونسل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ ایف 10 سے گاڑی میں اٹھایا گیا، ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے، مغوی وہاں گاڑی میں بیٹھے نظر آرہے ہیں، اس سے آگے سیف سٹی کیمرا نہیں، ہم نے جیو فینسنگ کا کہا ہوا ہے جس کی رپورٹ ابھی آنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اسلام آباد پولیس سرکاری محکمہ ہے یا کوئی سیاسی تنظیم؟‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے اسٹیٹ کونسل سے دریافت کیا کہ رپورٹ کب تک آ جائے گی، جس پر اسٹیٹ کونسل نے بتایا کہ رپورٹ ایک ہفتے میں آجائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 30 تاریخ کا آرڈر ہے، آپ نے کیا کیا ہے، ایس پی کدھر ہیں اور رپورٹ کہاں ہے، رپورٹ کو ایسے عدالت میں جمع نہ کروائیں، سی ایم کے ذریعے رپورٹ جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے، ہر سیکٹر سے بندہ اٹھایا جارہا ہے، آئی جی کی کیا ذمہ داری ہے، اسلام آباد میں چوریاں، ڈکیتیاں اور اغوا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، پولیس کو پتا ہی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میرے گمشدہ بچے کی بازیابی کا کیس ختم کردیا جائے، غریب خاتون کی سندھ ہائیکورٹ سے استدعا
اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی راستے میں ہیں، آ رہے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر ایس پی نے شعر سنایا تھا اور کہا تھا معاملہ حل ہو جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب جرائم کنٹرول نہیں کرپائیں گے تو شعر و شاعری ہی کریں گے ناں۔
بعدازاں، چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز اور متعلقہ ایس پی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی۔