10 اور 11 اکتوبر کی درمیانی شپ بلوچستان کے ضلع دکی میں ہونے والے کوئلہ کان حملے کے بعد کان کن اپنی جانوں کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے آبائی علاقوں کی جانب لوٹنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:دکی کوئلہ مزدوروں کا قتل، 40 ہزار مزدور اپنے آبائی علاقوں کی جانب لوٹ گئے
40 ہزار سے زائد مزدور آبائی علاقوں کو چلے گئے
لیبر ایسوسی ایشن کے مطابق حالیہ حملے کے بعد صوبے میں کام کرنے والے 40 ہزار مزدور اپنے آبائی علاقوں کی جانب روانہ ہو گئے ہیں، جبکہ دکی کی 12 سو سے زائد کوئلہ کانوں میں 50 ہزار غیر مقامی مزدور کام کرتے تھے، جن میں 40 ہزار سے زائد مزدور عدم تحفظ کے باعث آبائی علاقوں کو چلے گئے ہیں۔
کوئلہ سپلائی معطل
لیبر ایسوسی ایشن کے مطابق دکی میں کوئلہ کان حملے کے بعد سے ضلع بھر میں کان کنی معطل ہو چکی ہے، جس کے باعث روزانہ کی بنیاد پر ڈیڑھ سو ٹرک پر مشتمل سندھ، پنجاب و دیگر شہروں کو کوئلہ سپلائی بھی معطل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کالعدم بی ایل اے دکی کی کوئلہ کانوں سے یومیہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتی ہے، صوبائی وزیر کا انکشاف
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئلہ کان میں کام کرنے والے مزدور کان کنی چھوڑ دیتے ہیں تو ایسے میں کانکنی سے منسلک کون کون سے ایسے شعبے میں جن میں مزید مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا امکان ہے؟
بلوچستان کا المیہ
اس سوال سے متعلق وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل پاکستان سینیٹر مائن لیبر فیڈریشن سلطان محمد خان نے بتایا کہ بلوچستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معدنیات کے علاوہ کسی قسم اور کوئی اور صنعت موجود نہیں، ایسے میں لوگوں کا روزگار انہیں معدنیات کے ذخائر سے منسلک ہیں لوگ کانکنی سے زریعے اپنی زندگی کا گزر بسر کرتے ہیں ایسے میں کوئلہ کانوں پر ہونے والے حملوں نے مزدوروں کو خوف زدہ کر دیا ہے، جس کے سبب 40 ہزارو مزدور اپنا روزگار چھوڑ کر آبائی علاقوں کو لوٹ گئے ہیں۔ بے روزگار ہونے والے یہ 40 ہزار افراد نہیں بلکہ 40 ہزار خاندان ہیں جو دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔
اینٹوں کے بھٹے اور کوئلے پر چلنے والی فیکٹریاں میں کام بھی متاثر
سلطان محمد خان نے بتایا کہ دکی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقع کے سبب کان کنی معطل ہے جس کی وجہ سے کوئلہ کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں کوئلہ پر چلنے والے اینٹوں کے بھٹے اور کوئلے پر چلنے والی فیکٹریاں میں کام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اگر کوئلہ کی سپلائی بحال نہیں ہوئی تو ان شعبوں سے منسلک افراد کا روزگار بھی خطرے میں پڑھ جائے گا۔
التجا کرتے ہیں کہ مزدوروں کو قتل نہ کریں
سلطان محمد خان نے بتایا کہ بلوچستان میں کانکنی سے منسلک التجا کرتے ہیں کہ مزدوروں کو قتل نہ کریں ہے جبکہ لوڈنگ کرنے والے اور ٹرانسپورٹ سے منسلک افراد کا روزگار بھی اسی صنعت سے جڑا ہے۔ اگر کان کنی معطل ہو جاتی ہے تو اس سے نا صرف کان کن بے روزگار ہونگے بلکہ ٹرانسپورٹ اور لوڈنگ کا کام بھی ٹھپ پڑھ جائے گا۔ اس صورت میں لاکھوں مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
التجا کرتے ہیں کہ مزدوروں کو قتل نہ کریں
سلطان محمد کے مطابق بلوچستان میں کوئلہ کان مالکان سیکیورٹی اداروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے معاوضہ فی ٹن کے حساب سے ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات کا ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہم قاتلوں سے التجا کرتے ہیں کہ مزدوروں کو قتل نہ کریں۔