سپریم کورٹ نے این اے 262 کوئٹہ سے برطرف عادل بازئی کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل تیمور اسلم نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کو آرٹیکل 63 اے کے تحت ڈی سیٹ کیا۔ الیکشن کمیشن نے حقائق کا درست جائزہ لیا نا ہی انکوائری کے لیے عادل بازئی کو بلایا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر عادل بازئی کے حلف ناموں کا معاملہ سول کورٹ میں تھا تو الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار کیسے ہے؟ کیا الیکشن کمیشن سول کورٹ کے زیر التوا معاملے پر نوٹس لے سکتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عادل بازئی کے 2 حلف نامے ہیں اور وہ کہتے ہیں انہوں نے دوسرے پر دستخط کیا، کیا الیکشن کمیشن فراڈ پر انکوائری کر سکتا ہے؟
مزید پڑھیں: فلور کراسنگ پر رکن قومی اسمبلی عادل بازئی خان نااہل قرار
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کا معاملہ طے کریں، کسی کو اسمبلی سے باہر نکال دینا معمولی کارروائی نہیں لہٰذا ہر پہلو کو دیکھنا ہوگا۔
دوران سماعت عادل بازئی کے وکیل تیمور اسلم نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ان سے کہا کہ او ہو کیا آپ واقعی مخصوص نشستوں کے فیصلے پر انحصار کرنا چاہتے ہیں؟
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اب تو وہ کہتے ہیں ترمیم بھی آچکی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے، بہرحال چلیں آگے بڑھیں۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ممبر قومی اسمبلی عادل بازئی کی نااہلی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ اس کیس میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر انحصار کرسکتے ہیں، کیا عادل بازئی مخصوص نشستوں والے 81 ممبران کی فہرست کا حصہ تھے؟
عدالت میں بتایا گیا الیکشن کمیشن ڈیکلریشن نہیں دے سکتا، امیدوار کا تعلق کس جماعت سے ہے یہ تعین کرنا سول کورٹ کا کام ہے۔ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا الیکشن کمیشن کا 21 نومبر کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن کا 21 نومبر کا فیصلہ، فلور کراسنگ پر رکن قومی اسمبلی عادل بازئی خان نااہل قرار
یاد رہے کہ رواں برس 21 نومبر کو الیکشن کمیشن نے فلور کراسنگ پر رکن قومی اسمبلی عادل خان بازئی کو نااہل قرار دے کر انہیں ڈی سیٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ 262 سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی عادل خان بازئی کی نااہلی کے لیے مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کی جانب سے دائر ریفرنس پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: عادل بازئی کی نااہلی کے لیے قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو پھر خط لکھ دیا
نواز شریف نے فنانس بل اور آئینی ترمیمی بل کے لیے ووٹ نہ دینے پر عادل خان بازئی کے خلاف ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا تھا، اسپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج دیا تھا۔ عادل خان بازئی نے الیکشن میں آزاد حیثیت میں کامیابی کے بعد پہلے مسلم لیگ ن اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، عادل بازئی کے وکیل نے ن لیگ میں شمولیت کے بیان حلفی کو جعلی قرار دیا۔
الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد گزشتہ سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، جبکہ 21 نومبر 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے عادل خان بازئی کو نااہل قرار دے دیا تھا۔