جب تخت گرائے جاتے، تاج اچھالے جاتے ہیں

جمعہ 13 دسمبر 2024
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

   فیض کی ایک بہت خوبصورت نظم ہے،”ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“، اسے اقبال بانو نے گا کر لافانی بنا دیا۔اس کے کئی مصرعے غیر معمولی ہیں۔ مجھے یہ نظم ہمیشہ اٹریکٹ کرتی رہی ہے۔ میں تو خیر ایک عام اخبارنویس ہوں، اس نظم نے نجانے کہاں کہاں کے انقلابیوں کو مسحور کر دیا۔

  معروف بھارتی ایڈیٹر ونود مہتا جب آؤٹ لک میگزین کے ایڈیٹر تھے، انہوں نے اروندھتی رائے کی ایک رپورٹ شائع کی تھی،”واکنگ ودھ داکامریڈز(Walking With The Comrades)۔“ یہ ان کی نکسل باغی گوریلوں کے ساتھ گزرے چند ایام کی روداد ہے۔ اس رپورٹ میں اروندھتی رائے نے لکھا کہ جب وہ نکسل باغیوں کے خفیہ کیمپ میں تھی تو وہاں ٹیپ ریکارڈر پر اقبال بانو کی گائیگی میں فیض کی یہ نظم بار بار بجائی جاتی۔ انقلابی اسے سن کر نیا جوش اور ولولہ لیتے۔

  ہم نے فیض کی اس نظم کے بعض مصرعے اپنی آنکھوں سے پچھلے چند برسوں میں پورے ہوتے دیکھے ہیں۔یہ اور بات کہ وہ خواب جو خاک نشینوں کی آنکھوں میں تھے، وہ کہیں پورے ہوئے تو کہیں ان کی کرچیاں ان کی آنکھوں میں کھب کر انہیں زخمی کر گئیں۔

    ایسا ہی ایک منظر مصر میں دیکھا، لبییا اور یمن میں بھی۔اس سال تو بنگلہ دیش اور شام میں بھی نظر آیا۔

    مجھے دو ہزار دس کے آخر میں نائیجریا جانے کا موقعہ ملا۔فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن ہماری میزبان تھی، نائیجیریا میں کئی مسلم ممالک کے ڈاکٹروں نے فری آئی کیمپ لگائے، پاکستان سے پیما(Pima) کے ڈاکٹر شریک ہوئے۔ آتے جاتے ہوئے ہم نے قاہرہ، مصر میں قیام کیا۔ جاتے ہوئے ایک دن ملا اور واپسی پر بھی ایک دو دن مل گئے۔ پہلے دن ہم نے اہرام مصروغیرہ کو دیکھ کر یہ

حسرت تو پوری کر لی، واپسی پر ہمارے وفد کے سربراہ ڈاکٹر انتظار بٹ کی کوشش اور عرب میڈیکل ایسوسی ایشن کی مدد سے اخوان المسلمون کے رہنماؤں کے انٹرویوز کرنے کا موقعہ ملا۔ قاہرہ میں کئی مقامی عرب ڈاکٹروں سے بھی گپ شپ کی محفلیں ہوئیں، اسکندریہ جا کر وہاں کی شاندار لائبریری بھی دیکھی۔

  ہم دسمبر دو ہزار دس میں مصر گئے تھے، تب وہ پرسکون تھا۔ صرف چند ماہ بعد مصر میں ایک جوالامکھی پھوٹ پڑا۔ تیونس میں ہونے والے ایک افسوسناک واقعے سے ایسی چنگاری جلی جو قیامت خیز آگ میں تبدیل ہوگئی۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام، یمن وغیرہ میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔ چونکہ یہ سب مارچ اپریل کے موسم بہار میں ہوا، اس لیے اسے عرب بہار یعنی عرب سپرنگ کا نام دیا گیا۔

   دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف تین چار ماہ پہلے ہم مصر گئے، وہاں کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے لوگوں کے انٹرویوز کئے، گھنٹوں نشستیں ہوئیں، مگر ان میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنا جلد، صرف تین چار مہینوں میں حسنی مبارک کی مضبوط اور طاقتور حکومت یکایک پانی میں رکھے نمک کے ٹکڑے کی طرح تحلیل ہوجائے گی، مگر ایسا ہی ہوا۔ لاکھوں لوگ تحریر سکوائر پر اکھٹے ہوئے اور ’مبارک یہاں سے چلے جاؤ‘ کے نعروں سے قاہرہ گونج اٹھا۔ حسنی مبارک کا تیس سالہ دور اقتدار ختم ہوگیا اور انہیں رسوا کن انداز میں رخصت ہونا پڑا۔

  یہی سب کچھ لیبیا میں ہوا، جہاں بیالیس سال سے برسراقتدار کرنل معمر قذافی کے خلاف پرزور احتجاجی تحریک چلی جس میں مسلح رنگ شامل ہوا، غیر ملکی مداخلت بھی۔ کرنل قذافی کو نہ صرف اقتدار سے بلکہ بڑے عبرت انگیز انداز میں دنیا ہی سے جانا پڑا۔ یمن کے حکمران کا بھی تین عشروں کا اقتدار ختم ہوا۔ شام میں بھی پہلے عوامی احتجاج، پھر ہنگامے اور آخرکار مسلح جدوجہد شرو ع ہوئی۔

ایک وقت میں یوں لگ رہا تھا کہ باغی دمشق پر قابض ہوجائیں گے اور بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہونے لگا ہے، پھر روسی بمباری اور ایرانی، حزب اللہ جنگجوؤں کی مدد سے اسد حکومت بچ نکلی اور باغی پسپا ہوتے گئے، حتیٰ کہ ان کا آخری  معسکر حلب بھی ہاتھ سے نکل گیا۔

   شام پر ہم آتے ہیں کہ اصل موضوع وہی ہے۔ لیکن تھوڑا بنگلہ دیش کی طرف بھی نظر ڈال لیں۔

  بنگلہ دیش میں حسینہ واجد پندرہ سولہ سال حکمران رہی، چار بار الیکشن جیتے جن میں سے دو تین متنازع بھی تھے، اسی سال پانچویں بار الیکشن جیت کر پوری طرح بنگلہ دیشی منظرنامے پر چھا چکی تھیں۔ اس طویل عرصے میں بیوروکریسی، پولیس اور فوج میں اپنی مرضی کے لوگ اوپر لائے گئے، عدلیہ پر مکمل کنٹرول، میڈیا کو مینیج کر لیا گیا، غرضیکہ بظاہر کوئی چانس نہیں تھا کہ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوسکے گی۔ اپوزیشن کب کی دیوار سے لگائی جا چکی تھی، ہزاروں سیاسی کارکن جیلوں میں پڑے سڑ رہے تھے۔

  پھر اچانک ہی نجانے کیا ہوا۔ ملازمتوں میں کوٹے پر طلبہ کا احتجاج شروع ہوا۔ حکومت نے اسے سختی سے کچلنے کی کوشش کی، مگر احتجاج بڑھتا گیا۔ طلبہ کے ساتھ عام آدمی اور اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہوتی گئیں اور چند ہی ہفتوں میں ایک ایسا طوفان کھڑا ہوا جس نے حسینہ واجد کی پوری حکومت تنکے کی طرح اڑا دی۔ نام نہاد بنگلہ دیشی آئرن لیڈی کو بزدلانہ انداز سے فرار ہونا پڑا، ورنہ عوامی ہجوم اس کی تکابوٹی کر ڈالتا۔

آج حسینہ واجد بنگلہ دیش کے منظرنامے میں غیر متعلق ہوچکی ہیں، وہ ایک بوجھ بن کر اپنے ہمسایہ ملک میں باقی زندگی گزارنے پر مجبور نظر آ رہی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد حکومتی ظلم و جبر کی خوفناک داستانیں سامنے آئیں۔ بے شمار قیدیوں کو دس بارہ سال سے قید تنہائی میں ڈالا ہوا تھا اور نجانے کیا کیا۔

  یہی سب کچھ چند دن پہلے شام میں ہوا۔ بشار الاسد وہاں کے صدر اور مرد آہن تھے۔ ان کے والد تیس سال تک شام کے آمر رہے اور بیس برسوں سے بشار الاسد وہاں مسلط تھے۔ ان کا تعلق شام کے اقلیتی فرقے سے تھا جس کی تعداد بمشکل آٹھ دس فیصد سے زیادہ نہیں، نوے فیصد مخالف اکثریتی فرقے کو مسلسل جبر اورظلم سے دبا کر رکھا، کچلنے کا ہر ممکن حربہ آزمایا۔ اپنی وحشیانہ قوت، اپنے حامی ممالک کی سپورٹ اور روس کی بھرپور سرپرستی سے باغیوں کو کچل ڈالا، دس سال مزید نکال گیا۔

  اب جب کہ حزب اللہ کمزور ہوئی، لبنان میں افرادی قوت کا مسئلہ بنا اور اسے اپنے جنگجو واپس بلانے پڑے، یہ اتنا بڑا دھچکا بنا کہ شام کی حکومت اور اس کی سفاکانہ قوت بھی دھری کی دھری رہ گئی۔ باغی گروپ اکٹھے ہو کر تیزی سے آگے بڑھے۔ پہلے حلب پر قبضہ ہوا۔ تب ان جنگجووں نے کہا کہ ہم عید الفطر یعنی اپریل میں دمشق فتح کر لیں گے۔ یہ کام مگر دسمبر ہی میں ہوگیا۔ بشار الاسد بھی تیونس کے زین العابدین، مصرکے حسنی مبارک، افغانستان کے اشرف غنی اور بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی طرح بزدلانہ انداز میں جان بچانے کے لیے فرار ہوگیا۔ اسے روس نے پناہ دی ہے اور اب شام پر باغی جنگجوؤں کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔

  میرا کوئی ارادہ نہیں کہ شامی جنگجوؤں کا قصیدہ رقم کروں، مجھے نہیں معلوم کہ محمد الجولانی کیسے حکمران ثابت ہوں گے، یہ تو بہرحال حقیقت ہے کہ ان کا خمیر شدت سے اٹھا ہے۔مجھے اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ شام میں کون سا فرقہ مغلوب اور کون سا فتح یاب ہوا؟ اس سے مڈل ایسٹ میں کس کو نقصان اور کسے فائدہ پہنچے گا؟ یہ سب الگ موضوعات ہیں، ان پر بہت کچھ لکھا بھی جا رہا ہے، کئی اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ شام میں رجیم چینج شامی عوام کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوگی اور اس کا”قدسیوں“پر کیا اثر پڑے گا اور مڈل ایسٹ کی ظالم اور غاصب ریاست کو کیا نفع نقصان پہنچائے گا؟

  میرا پوائنٹ تو یہ ہے کہ کس طرح یہ طاقتور ترین حکمران جو اپنی طاقت کے زعم اور رعب میں گردن اکڑا کر بیٹھے ہوتے ہیں، بظاہر دور دور تک ان کا ڈنکا بج رہا ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کے اقتدار کا سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوگا۔ پھر اچانک ہی کچھ ہوتا ہے، ایک تلاطم سا، زیر آب پرسکون لہروں سے نمودار ہوتا ایک سونامی، یا پھر ایک ایسا ریتلا طوفان جو بہت کچھ اڑا کر ساتھ لے جائے۔ یہ سب کیسے ہوتا ہے، کیوں ہوتا ہے، اس پر بھی بہت سے تجزیے کیے جا سکتے ہیں،نت نئی نکتہ سنجی ہوسکتی ہے۔

آخری تجزیہ میں بات ایک ہی ہے کہ کئی بار دیوار پر لکھا ہوا حکمرانوں کو ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ وہ نوشتہ دیوار نہیں دیکھ پاتے اور تب ہوش آتا ہے جب ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔

  یہ حسنی مبارک کے ساتھ ہوا، حسینہ واجد کے ساتھ ہوا، اشرف غنی بھی اسی کا شکار ہوئے اور بشار الاسد بھی۔ بہتر ہوتا کہ اسد فیملی شام کو تباہ ہونے سے بچاتی اور خود مسلط رہنے کے بجائے وہاں جمہوری نظام لے آتی۔ شامی عوام کی مشکلات کم کی جاتیں اور تقسیم بڑھانے کے بجائے گھٹائی جاتی۔ ایسا نہیں ہوا اور اس کے فطری نتائج بھی بشارالاسد نے دیکھ لیے۔

  بیسویں صدی کے سب سے بڑے مورخ ٹائن بی نے کہا تھا، ’تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔‘ کاش! یہ بات شامی آمر کو سمجھ آجاتی تو لاکھوں شامی بے گھر نہ ہوتے، ہزاروں ہلاکتیں نہ ہوتیں۔ کاش!!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp