آئی ایم ایف نے مطالبہ مان لیا، سیلز ٹیکس پر چھوٹ کے بعد کیا پی آئی اے کی نجکاری ہوجائے گی؟

جمعرات 19 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملکی معیشت پر ایک بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں سنہ 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم اب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کے یورپی سفر کا دوبارہ آغاز 10 جنوری کو پیرس روانگی سے ہوگا

حکومت نے 31 اکتوبر کو ایک مرتبہ بولی کا بھی انعقاد کیا تاہم خریداری میں دلچسپی لینے والی صرف ایک کمپنی نے بولی میں حصہ لیا اور صرف 10 ارب روپے کی بولی لگائی۔ نجکاری کمیشن نے چونکہ پی آئی اے کی ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی اس لیے بلیوورلڈ کنسورشیم کی 10 ارب روپے کی بولی مسترد کر دی گئی اور اب تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری مکمل نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جو یہ ہیں کہ نجکاری کے لیے ایف بی آر سے جو تعاون مانگا تھا وہ نہیں ملا اور طیاروں کی لیز پر 18 فیصد جی ایس ٹی نہ لینے کا ایف بی آر سے مطالبہ بھی کیا گیا تھا تاہم ایف بی آر نے بالکل لچک نہیں دکھائی۔

عبدالعلیم خان نے کہا کہ نجکاری کے لیے تمام اداروں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اور حکومت کو کسی بھی ادارے کی نجکاری سے پہلے اس کے اثاثے ختم کرنے چاہییں کیوں کہ منفی اثاثوں کے ساتھ کسی بھی ادارے کی نجکاری ممکن نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیے: یورپ کے لیے پروازیں، پی آئی اے کا کڑا امتحان

آئی ایم ایف نے اب پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں سیلز ٹیکس چھوٹ اور ایکویٹی لاسز ختم کرنے کا مطالبہ مان لیا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے پی آئی اے کے لیز طیاروں کو ماہانہ تقریباً 81 لاکھ روپے تک سیلز ٹیکس چھوٹ کی سہولت ہوگی۔

وی نیوز نے معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا آئی ایم ایف کے اس اقدام سے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل ہو سکے گا اور کیا بہتر بولی لگ سکے گی؟

معاشی ماہر شہباز رانا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پی آئی اے کے نئے تیاروں کی خریداری یا لیز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کی چھوٹ دینے کی منظوری دی ہے اور یہ سہولت تب ہی دستیاب ہوگی اگر پی آئی نجکاری ہو جاتی ہے اور یہ چھوٹ ان جہازوں کے لیے ہوگی جو کہ عالمی روٹس پر چلائے جائیں گے۔

شہباز رانا نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری میں حائل سیلز ٹیکس کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں، وفاقی وزیر  نجکاری عبدالعلیم خان سرعام کہہ چکے ہیں کہ نجکاری ان حالات میں ہونا بہت مشکل ہے جبکہ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ جو 2 ارب روپے کی ادائیگی کر کے نجکاری کے لیے کنسلٹنٹ رکھے گئے تھے ان کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں، اب پی آئی اے کی نجکاری کے لیے شاید کوئی نیا کنسلٹنٹ رکھا جائے گا جو کہ پھر سے نجکاری کے لیے اپنا پلان مرتب کرے گا لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ نجکاری کے عمل میں کافی زیادہ تاخیر ہو جائے۔

سول ایوی ایشن کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی طارق ابوالحسن نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایئر لائن کے سی ای او عامر حیات کے وقت پی آئی اے کے انتظامی معاملات کافی خراب تھے بہت سے طیارے گراؤنڈ ہوگئے تھے اور بہت سوں کے اسپیئر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت نہیں تھی جبکہ بیرونی ممالک کے روٹس پر چلنے والے 12 میں سے صرف 5 طیارے چل رہے تھے اور باقی گراؤنڈ ہو چکے تھے اس وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری میں کافی مشکلات تھیں۔

طارق ابوالحسن نے کہا کہ اب عامر حیات کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ خرم مشتاق کو پی آئی اے کا قائم مقام چیف ایگزیکٹیو آفیسر تعینات کیا گیا ہے جس سے پی آئی اے کے انتظامی معاملات کچھ بہتر ہو گئے ہیں اور نجکاری کا عمل بھی کافی تیز ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: خرم مشتاق پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کے قائم مقام سی ای او مقرر

سینیئر صحافی نے کہا کہ نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کی ریزرو یعنی محفوظ قیمت 8 ارب روپے رکھی تھی جبکہ ایوی ایشن ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پی آئی اے کی مالیت 300 ارب روپے سے بھی زائد ہے اور اب یورپی روٹس بحال ہونے کے بعد پی آئی اے کی قیمت مزید بڑھ گئی ہے۔

طارق ابوالحسن نے بتایا کہ قائم مقام چیف ایگزیکٹو آفیسر نے برطانیہ کو بھی خط لکھا اور ان سے درخواست کی کہ پی آئی اے کے روٹس کو بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت تو پی آئی اے کے نجکاری کی حتمی تاریخ کا نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماضی کی نسبت اس وقت پی آئی اے ایک مضبوط ادارہ ہے اور اگر اب نجکاری کے لیے بولی کا عمل ہوتا ہے تو بہت اچھی بولی لگ سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp