اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے!

بدھ 25 دسمبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 عجیب سا گمان ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہا ہے۔ کچھ بات آج کے دن کی مناسبت سے ہے، کچھ خیال موجودہ ملکی صورت حال سے۔ دونوں کی آمیزش سے ایک بات ذہن کو کچوکے لگا رہی ہے۔ ایک خیال سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ اگر قائد اعظم، دنیا کی سب بڑی مسلمان ریاست کے رہبر و رہنما حیات ہوتے تو یہ ملک کیا ہوتا؟ اس میں بسنے والوں کی کیا حالت ہوتی؟ اس خطے کی صورت کیا ہوتی اور کیا حال ہوتا؟ خیال کی اس پرواز میں تخیل کا پرندہ جانے کس اور پرواز کر گیا,  فیصلہ آپ کیجیے۔

اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو اس ملک میں کس طرح کا نظام حکومت ہونا ہے، اس کا فیصلہ ضرور ہو چکا ہوتا۔ اسلامی نظام نافذ ہو چکا ہوتا۔ جمہوریت پنپ چکی ہوتی۔ عوام کی رائے صائب ہو چکی ہوتی۔ عوامی نمائندگان کے ادارے مستحکم ہو چکے ہوتے۔ عوامی نمائندگان 77 برس میں اپنے حقوق و فرائض سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہوتے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ عوام کی امیدوں کا مرکز بن چکے ہوتے۔ عوامی نمائندگان سے عوام ان کی کارکردگی کے بارے میں سرعام سوال کر رہے ہوتے یوں سینیٹرز  اور ارکان اسمبلی  عوام کو جواب دہ ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں:گھمسان کا رن پڑنے والا ہے

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو معیشت ترقی کر چکی ہوتی۔ بلینس آف پیمنٹ میں توازن آ چکا ہوتا۔ اسٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ دنیا پاکستانی معیشت کو رشک کی نظروں سے تک رہی ہوتی۔ روپے کی قدر ڈالر سے کہیں زیادہ ہوتی۔ پاکستان قرضوں کے بار تلے  دبا نہیں ہوتا۔ پاکستان اس پوزیشن میں ہوتا کہ غریب ملکوں کی مدد کر رہا ہوتا۔ اشیائے صرف عوام کی دسترس میں ہوتیں۔ بجلی اور گیس کے بل عوام کے لیے سوہان روح نہ بنے ہوتے۔  پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوتا، اور ہم جی سیون اور جی ایٹ جیسے گروپوں کے اہم رکن ہوتے۔

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہم کامیاب ہو رہے ہوتے۔ ہمارے تمام دوست  ملکوں سے بہتر تعلقات ہوتے۔ دشمن ملک ہماری ہیبت سے کانپ رہے ہوتے۔ دنیا میں پاکستان کی اہمیت ہوتی۔ شاید اقوام متحدہ ہمیں ویٹو کا حق بھی دے دیتی۔ دنیا ہمیں قرض لینے والے ملکوں میں شمار نہ کرتی، بلکہ ایک خود مختار آزاد مسلمان ریاست کی طرح اہمیت دیتی۔ اسلامی بلاک بن چکا ہوتا، پاکستان اس کی قیادت کررہا ہوتا۔ دنیا کے جھگڑوں میں پاکستان کا کردار تصیفہ کرانے والوں میں ہوتا۔ ہمارے ووٹ کی اقوام متحدہ میں اہمیت ہوتی۔ دنیا ہمارے طرف داری کی متمنی ہوتی۔ بھارت کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف دیکھتا۔

اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو کبھی بھی پاکستان میں مارشل لا نہ لگتا۔ کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ عوام کے نمائندگان کے ووٹ کی حرمت کو خاک میں ملائے۔ کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ آئین میں اپنی مرضی کی ترمیم کرے۔ کسی میں اتنا حوصلہ نہ ہوتا کہ کہ نظریہ ضرورت کی تحت ڈکٹیٹروں کو حق حکمرانی دیتا۔ پاکستانی تاریخ میں ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف کے نام بھی نہیں ہوتے۔ بنگلہ دیش اب بھی مشرقی پاکستان ہوتا، اور پاکستان اصل معنوں میں ایک جمہوری ملک ہوتا۔ جہاں آئین کی حکمرانی، قانون کی عملداری اور ووٹ کی عزت ہوتی۔ ریاست عوام کے لیے سوتیلی نہیں سگی ماں جیسی ہوتی۔  پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں:مرید، مرشد اور مُلک

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو اپنی یہاں سڑکیں بن چکی ہوتیں، اسکول تعمیر ہو چکے ہوتے صحت کی سہولیات سب کو میسر ہوتیں، اس خطے سے بھوک ختم ہو چکی ہوتی۔ افلاس مٹ  چکا ہوتا۔ روزگار کے بے شمار مواقع ہوتے۔ خواتین پاکستان کی ترقی میں شانہ بشانہ شریک ہوتیں۔ نوجوان تعمیری کاموں اور مںصوبوں میں مگن ہوتے۔ کھیل اور فنون کی ترویج ہو رہی ہوتی۔ فن اور فنکار کی عزت ہوتی۔ تعلیم کے لیے بے شمار بین الاقوامی  سطح کی یونیورسٹیاں ہوتیں جو مفت تعلیم بانٹ رہی ہوتیں۔ پاکستان کے ہنرمند نوجوان دوسرے ممالک میں  وطن کا نام روش کر رہے ہوتے۔ پاکستان میں ناخواندگی نام کو نہ ہوتی۔ کھیلوں میں پاکستان کا اعلیٰ مقام ہوتا، اولپکس میں پاکستان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا، ہمارے کھلاڑیوں کی جھولیاں سنہری اور نقرئی میڈلز سے بھر گئی ہوتیں۔ ہر کھیل میں وکٹری اسٹینڈ پر پاکستان کا جھنڈا بلند ہوتا۔ پاکستان کا ترانہ ملکوں ملکوں گونج رہا ہوتا۔

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو پاکستان سے جاگیردارنہ نظام ختم ہوچکا ہوتا۔ وڈیروں اور زمینداروں کی اسمبلیوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ایوان عوامی فلاح کے قانون بناتے اور اسمگلر اور پراپرٹی ڈیلر پیسے کے بل بوتے پر پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہوتے۔ سیاست میں کرپشن ختم ہو چکی ہوتی۔ سیاست کو لوگ عبادت سمجھتے اور عوام کی خدمت بجا لانا اپنا فرض جانتے۔ تعلیم  یافتہ نوجوان قیادت اسمبلیوں میں آ چکی ہوتی، جمہوریت نتھر چکی ہوتی، جمہور سنور چکے ہوتے، معیشت سنبھل چکی ہوتی، ہم خود مختار ہوتے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے خوفزدہ دبکے نہ بیٹھے ہوتے۔

قارئین کرام! ان میں سے بہت سی باتیں خواب ہیں، خیال ہیں، سپنے ہیں۔ کسی بات کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔  قائد محترم کی شخصیت،  سیاست اور متانت کو دیکھ کر یہ اندازے لگائے گئے ہیں جو خواب لگتے ہیں۔ کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ کوئی اٹل فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ سب خوش گمانی ہے خوش خیالی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی بے گور و کفن لاش

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو پاکستان کیسا ہوتا حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو بھی عمران خان جیل میں ہوتے کیونکہ قائد اعظم کسی ایسی جماعت یا لیڈر کا وجود پسند نہ کرتے جو اپنے آپ کو وطن سے بالاتر سمجھے، جو اپنے کارکنوں کو پاکستان کے پاسپورٹ جلانے کی ترغیب دے، جو اپنے جیالوں کو سبز پرچم پیروں تلے روندنے کا حکم دے۔ جو ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ کے نعرے لگوائے، جو 9 مئی جیسے واقعات کا ماسٹر مائنڈ ہو، جو معاشرے میں انتشار و اختلاف کو ہوا دے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو انتشار پھیلانے والوں کے بارے حتمی  فیصلہ آ چکا ہوتا۔ حکومت ان انتشاریوں کے سوشل میڈیا سے خوفزدہ نہ ہوتی۔

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو ریاست ڈٹ کے اپنے مؤقف کا دفاع کر رہی ہوتی اور انتشار پھیلانے والوں کا انجام نوشتہ دیوار ہوتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp