بنگلہ دیش کے ’نئے بانی‘ اور فہمیدہ ریاض کی ایک پرانی کتاب

جمعرات 9 جنوری 2025
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک کے بانی سے عوام کا رشتہ وفاداری بشرطِ استواری کے مصداق ہوتا ہے لیکن نیرنگیٔ زمانہ ہے کہ بنگلہ دیش نے آزادی کے 53 سال بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی بجائے جنرل ضیاء الرحمٰن کو بانی مبانی بنا لیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد مجھے معروف شاعرہ اور فکشن نگار فہمیدہ ریاض کی کتاب ’زندہ بہار‘ کا خیال آیا ہے جو دسمبر 1989 میں ان کے ڈھاکہ  کے ایک سفر کی روداد ہے جس میں بنگلہ دیش کے نئے بانی کا خاصا تذکرہ ہے۔

یہ کتاب بنگلا دیش کی معاشرتی اور سیاسی تاریخ کو غیر روایتی انداز سے دیکھنے کی ایک تخلیقی سعی ہے جس میں درد اور اپنایت کے رنگ شامل ہیں۔ بیانیے میں اپنی  ذات کے لیے وہ  کبھی ’میں‘ کبھی ’وہ‘ اور کبھی ’فہمیدہ ریاض‘ لکھتی ہیں۔

فہمیدہ کو بنگالیوں سے اپنی ریاست کی زیادتیوں کا رنج ہے، بہاریوں کے کرب کا احساس ہے اور عام بنگالی شہریوں کے مصائب کا خیال بھی۔ ہاتھ رکشا چلاتے فرد کی پرانی دھرانی لنگی میں ماس سے عاری سوکھی ہوئی ٹانگوں پر بھی ان کی نظر ٹھہرتی ہے اور  وہ خاتون ماہر اقتصادیات سے یہ بھی پوچھتی ہیں:

’گاؤں میں بنگالی سردی سے مر رہے ہیں،

آپ کے ہاں غریبی بڑھ رہی ہے، کیوں؟‘

مصنفہ متحدہ پاکستان ہی نہیں اس سے پہلے کی تاریخ سے بھی واقف ہیں اس لیے انہیں کلکتہ اور نواکھلی کے فسادات کا خیال بھی آتا ہے۔ اور اب اپنے سابقہ ہم وطنوں کی 18 برس کی تاریخ جاننے کی چیٹک ہے جس کے واسطے وہ محمد پور میں مفلوک الحال بہاریوں کے کیمپ میں جاتی ہیں۔

فہمیدہ ریاض عام آدمی کی رائے سننے کی مشتاق بھی نظر آتی ہیں اور بنگالی پروفیسر، جرنیل، جج  اور صحافی سے مکالمہ بھی کرتی ہیں۔ انہوں  نے ذہن میں کلبلاتے سوالوں کا جواب مختلف شخصیات سے حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں بنگلہ دیش کی 18 سالہ تاریخ کے بارے میں ایک متنوع نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر کی ماؤں کی ایک مشترکہ فکرمندی

فہمیدہ ریاض نے صرف اپنے مشاہدات قلم بند نہیں کیے بلکہ  اپنے دل و دماغ میں جاری کشمکش کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ باہر جو کچھ دیکھتی ہیں اسے گاہے دل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں اور گاہے اسے دماغ کی میزان پر تولتی ہیں۔ اپنے قیام کا زیادہ تر وقت انہوں نے اس شہر اور اس کے مکینوں  کو جاننے میں صرف کیا۔ اس لیے وہ محفل میلاد میں بھی جاتی ہیں اور پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ سبھا بھی جماتی ہیں۔ 2 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی انہوں نے عوامی لیگ کے جلوس میں یحییٰ خان کے پتلے جلتے دیکھے۔

بنگلہ دیش انہیں تہذیبی اعتبار سے بھی بہت اپیل کرتا ہے: ’ڈھاکہ کے تقریباً ہر بنگالی گھر میں اسے ہار مونیم نظر آیا تھا۔ ایک گانا گاتی قوم‘۔

ان کے کاٹ دار جملے بھی بیانیہ میں اچانک سامنے آ جاتے ہیں: ’یہاں ہر چیز پاکستان سے کوئی 10 گنا چھوٹے پیمانے پر ہے۔ ان کی فوج بھی اتنی چھوٹی اور فوجیوں کے مکان بھی، میں نے سوچا۔ مگر اتنی چھوٹی سی فوج دھڑا دھڑ مارشل لا لگاتی رہتی ہے‘۔

ذہنی ذقند  کے ذریعے وہ حال سے ماضی میں پہنچ  جاتی ہیں۔ بنگالیوں کے ساتھ شریکِ طعام ہونے پر انہیں کیا بات سوجھتی ہے ذرا ملاحظہ کیجیے:

’وہ بھوکوں کی طرح کھائے جا رہی تھی۔ دماغ میں گھنٹی بجی۔ بھوکے بنگالی! بچپن سے اس نے یہ لفظ سنے تھے۔ بھوکے بنگالیوں کی طرح کھا رہی ہو… بھوکے بنگالی… بنگلہ دیش میں بنگالیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے اسے یہ توہین آمیز الفاظ یاد آئے‘۔

کتاب میں ایسے مقام بھی  ہیں جب وہ اپنی رائے بلا کم و کاست بیان کرکے مخاطب کے نقطہ نظر کو رد کردیتی ہیں۔ مثلاًجب ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر خلیق الرحمٰن کہتے ہیں کہ ’بہاری …  وہ ہمارے معاشرے میں ضم ہو جانے پر تیار نہیں‘۔

اس پر فہمیدہ ریاض کہتی ہیں: ’بھئی، معاشرے میں ضم ہونے پر تیار نہیں، تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ معاشرے میں مختلف اکائیاں وجود کیوں نہیں رکھ سکتیں؟ ضم ہونا کیوں ضروری ہے؟ آپ سب کو ہتھوڑے سے ٹھونک پیٹ کر ایک جیسا بنانے پر آخر کیوں مُصر ہیں؟ آخر معاشرہ تو ایک متنوع چیز کا نام ہے‘۔

مزید پڑھیے: وہ تخلیق کار جنہیں جیتے جی مار دیا گیا

بہاریوں کے درد کو ایک اور جگہ بھی انہوں نے بڑی دل سوزی سے اپنے بیان میں سمیٹا ہے۔ پروفیسر خلیق  جھونپڑیوں میں درد کے مارے بنگالیوں کی طرف اشارہ کر کے جب یہ کہتے ہیں کہ ان میں اور محمد پور کیمپ کے باسیوں میں کوئی فرق نہیں تو فہمیدہ کا دل یہ بات قبول نہیں کرتا: ’ہے دل نے کہا۔ غربت کے ساتھ ایک اور بھی احساس، کہ اس زمین نے انہیں تھوک دیا ہے، یہ زمین ان پر تنگ ہے۔ یہ نفسیاتی دباؤ آدمی کو پاگل کر سکتا ہے‘۔

یہ 35 سال پرانے سفر کی کتھا ہے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں  بہت سے سیاسی طوفان اٹھے جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے گئے لیکن اس کتاب کے وسیلے سے ہم بنگلہ دیش کے پہلے 18 برس کی حکایات خونچکاں کے بارے میں بہت  کچھ جان سکتے ہیں۔ اگر ہم ان مشاہدات کو  پہلے سے طے شدہ مؤقف کی تائید میں استعمال کرنے سے دامن بچا سکیں تو ان سے بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کی صحیح تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔

چوں کہ جنرل ضیاء الرحمٰن کو بنگلہ دیش کا بانی قرار پانے سے ہمیں یہ مضمون لکھنے کا خیال آیا ہے، اس لیے زیادہ ذکر انہی کا رہے گا۔

پروفیسرخلیق سے گفتگو میں فہمیدہ ریاض ان سے کہتی ہیں: ’ضیاء الرحمٰن، وہ بھی کودِتا کے ذریعے لائے گئے  تھے مگر میں نے محسوس کیا ہے، کافی لوگ ان کو ناپسند نہیں کرتے۔ کل گاڑی میں کسی نے مجھے کافی احترام سے ان کی قبر دکھائی تھی‘۔

اس پر پروفیسرصاحب نے ضیاء الرحمٰن کی بنگالیوں میں قبولیت کے مختلف اسباب گنوائے جن میں سے ان کے نزدیک ایک یہ بھی تھا: ’بنگلہ دیش میں انہوں نے نظریاتی خطوط پر بری طرح تقسیم شدہ عوام کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے زمانے میں، بنگلہ دیش بننے کے بعد پہلی بار، جنگ آزادی کا ساتھ نہ دینے والوں یا پاک فوج کے ساتھ کسی بھی سطح پر تعاون کرنے والوں کو حقارت سے مطعون کرنا ختم کر دیا گیا یا ایسا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے بیچ کا راستہ اپنایا اور اس طرح اپنی حمایت کا دائرہ وسیع رکھا‘۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد حکمران کی حیثیت سے وہ شیخ مجیب کی نااہلی کا ذکر کرتی ہیں اور قید سے رہائی کے بعد ان کا وہ انٹرویو انہیں یاد آتا ہے جس نے انہیں متاثر نہیں کیا تھا۔

وہ پروفیسر خلیق سے پوچھتی ہیں : ’شیخ مجیب کا بھی خاص ذکر نہیں کیا جا رہا، جو کہ آپ کی ریاست کے نظریاتی باپ تھے؟‘

اس سوال کے جواب میں  پروفیسر کہتے ہیں:

’بنگلہ دیش جب بنا، تب تو ان کی مقبولیت پر سوال ہی نہ اٹھتا تھا۔ وہ ہر دلعزیز ہیرو تھے۔ مگر بعد میں۔۔۔‘

پروفیسر صاحب مجیب دور کے ایک بھیانک قحط کا تذکرہ چھیڑتے ہیں جو ان  کے خیال میں مصنوعی تھا اور اس کے پیچھے امریکا کا ہاتھ تھا : ’امریکا نے معاہدے کے مطابق خوراک وقت پر نہ بھیجی۔ جان بوجھ کر امداد روک لی گئی۔ اس طرح ملک میں قحط پڑ گیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عوامی لیگ کی نااہلی اور لوٹ کھسوٹ نے یوں بھی پارٹی کی مقبولیت تیزی سے کم کی تھی لیکن قحط نے مجیب حکومت کی تقدیر پر مہر لگا دی‘۔

فہمیدہ ریاض سوال اٹھاتی ہیں : ’کہیں یوں ہی تو نہیں کہتے لوگ یہ بات کہ بس امریکا نے ایسا کیا ہوگا؟‘

اس پر پروفیسر خلیق بولے: ’جب میں امریکا میں تھا تو میں نے ایسی دستاویزات خود دیکھی تھیں جن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے۔ اور اس کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں قحط نہیں پڑا۔ خوراک کی قلت تو پہلے جیسی ہی ہے‘۔

قحط میں امریکی کردار کے تذکرے پر فہمیدہ ریاض کو ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ’متھ آف انڈیپنڈنس‘ یاد آجاتی ہے اور وہ پروفیسر کو بتاتی ہیں: ’اس میں انہوں(بھٹو) نے لکھا کہ بڑی طاقتیں ۔۔۔ اصل میں تو امریکا ۔۔۔ جب چاہے غریب ملکوں کوجنگ کی آگ میں جھونک سکتا ہے، وغیرہ … ویسے گرفتاری سے کچھ دن قبل انہوں نے ٹی وی پر کہا تھا۔ یہی کہ سفید ہاتھی میرے پیچھے پڑا ہے‘۔

اس سفر میں فہمیدہ ریاض کی ریٹائرڈ جرنیل سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو ضیاء الرحمٰن کے زمانے میں وزیراطلاعات رہے تھے۔  ان صاحب نے بھی قحط کا حوالہ دیا۔ مجیب کے خلاف بغاوت کو سی آئی اے کا پلاٹ بتایا۔ کہا کہ مجیب کوخوندکر مشتاق نے مارا۔ اس کے بعد خالد مشرف نے انہیں معزول کردیا اور خود بھی  وہ کرنل ابو طاہر کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔

خالد مشرف کے بعد ابوطاہر خود صدر نہیں بنے بلکہ انہوں نے جنرل ضیاء الرحمٰن کو یہ عہدہ لینے دیا اور پھر انہی نے فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر انہیں پھانسی دی۔

فہمیدہ ریاض نے جاننا چاہا کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب دینے سے وہ گریز کرتے ہیں۔

فہمیدہ ریاض لیکن یہ جواب لے کر ٹلتی ہیں  جرنیل نہ سہی ایک ریٹائرڈ جج سے  ہی سہی ۔پہلے تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر ٹالنا چاہا: ’سچ تو یہ ہے کہ بات کچھ صاف نہیں‘۔

’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے زچ ہو کر سر پر ہاتھ مار کر کہا‘۔

مزید پڑھیں: مشرقی پاکستان کا گورنر راج اور آج کے اندیشے

اس ردعمل پر جج صاحب کو لب کشائی کرنی ہی پڑی ۔ بتایا کہ جاتیو سماج تنترک دل جو ایک طرح کی کمیونسٹ پارٹی تھی وہ انقلابِ مسلسل کا نعرہ لگا رہی تھی۔ فوج کے اندر اس کی سرگرمیوں سے ڈسپلن کے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ یہ طبقاتی خلیج کو اجاگر کر کے سپاہیوں کے دل  افسروں کے طرف سے خراب کر رہے تھے جس کے خطرناک نتائج نکلے۔ ضیاء الرحمٰن پر امریکا کے ہاتھوں میں کھیلنے کا الزام تھا۔ یہ انقلابی چینی اثر کی وجہ سے روس، امریکا اور ہندوستان کے خلاف تھے۔

جج صاحب نے فہمیدہ ریاض کو  بتایا:

’یہ افواہ بھی نہایت سرعت سے گشت  کر رہی تھی کہ انقلابی فوجی کونسل کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل ابوطاہر ایک دوسرا انقلاب لایا ہی چاہتے ہیں‘۔

ان حالات کے تناظر میں جنرل ضیاء الرحمٰن نے انقلابیوں کی بغاوت کچل دی۔ کرنل ابو طاہر کی مقبولیت جلد ہی ہوا ہو گئی۔

’اس کے بعد کرنل منظور کے ہاتھوں جنرل ضیاء الرحمٰن بھی قتل ہوگئے۔ کرنل منظور بھی مارا گیا۔ اس سب  کے بارے میں ماہر اقتصادیات اور بنگالی ہفت روزہ کی ایڈیٹر سونیا رحمٰن جب یہ کہتی ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب پاکستان سے لوٹائے گئے فوجیوں کا کیا دھرا ہے۔ وہ اور  بنگلہ دیش کے لیے لڑنے والے فوجی ایک نہیں ہو سکے‘۔ فہمیدہ ریاض کا ردعمل کچھ یوں سامنے آتا ہے:

’یہ تو انتہائی دور از کار تھیوری معلوم ہو رہی ہے۔ مجھے تو معاملہ بالکل الٹ نظر آتا ہے۔ تمام قتل  انہی لوگوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں جو جنگ آزادی میں شامل تھے۔ دراصل آپ کی اپنی وہ فوج جس نے بنگلہ دیش بنانے کی لڑائی لڑی، اقتدار اور انتظام ،سیاست دانوں اور سول نوکر شاہی کے ہاتھ میں سونپ دینے کے لیے آمادہ نہیں ۔ آپ لوگ کودِتاوں کے تواتر سے شرمندہ ہو کر یہ تھیوری گھڑ رہے ہیں کہ پاکستان سے لوٹنے والے فوجی اس قدر لمبی چوڑی سازشیں کر رہے ہیں اور یہ کہ وہ اتنے مؤثر ہیں کہ کروڑوں کی آبادی کو نچا رکھا ہے‘۔

سونیا اپنے نیوکلیئر فزسسٹ شوہر سے فہمیدہ کو  ملواتی ہے جو ضیاء الرحمٰن کو پسند کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں وہ مخلص تھے۔ اس بات سے ان کی بیوی کو اتفاق نہیں جس کے خیال میں مخلص تو مجیب بھی بہت تھے لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ سونیا نے بتایا کہ ضیاء الرحمٰن نے چین دوست فوجیوں اور ان کی پارٹی کا صفایا کیا، اس میں انہیں روس دوست کمیونسٹوں کی حمایت حاصل تھی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے بائیں بازو کے لوگوں سے فاصلہ اختیار کر لیا جو انتخابات میں بھی ہار گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے۔ اختلاف کرنے والوں کی شامت آنے لگی۔

سونیا نے بتایا کہ بیرونی امداد کے لیے وہ بہت دوڑ دھوپ کرتے تھے۔ اس کے لیے ڈراما بھی رچا لیتے تھے۔

اس ڈرامے کی نوعیت جاننے میں فہمیدہ ریاض نے دلچسپی ظاہر کی تو سونیا نے بتایا:

’بھئی ضیاء الرحمٰن جب دورے پر جاتے بسی اس دن کے لیے بی این پی کے لیڈر کرائے پر دیہاتی لے آتے جو کبھی دریا میں جال ڈال کر بیٹھ جاتے، کہیں پھاوڑا تھام، یوں ہی زمین کھودنے لگتے۔ ضیاء الرحمٰن بہت متاثر ہو کر لوٹ جاتے۔ میکنمارا کے آنے پر بالکل اسی طرح کا ڈراما خود ضیاء نے کیا۔ ایک دن کے لیے ہزاروں لوگوں کو کرائے پر لے آئے جو جھوٹ موٹ سمندر کے پانی سے نمک بنانے کا سوانگ رچانے لگے۔ میکنمارا نے معائنہ کیا اور بہت متاثر ہو کر واپس چلے گئے۔ دن بھر کے لیے کرائے پر حاصل کیے ترقیاتی کام کرنے والے بھی واپس چلے گئے ۔کھیل ختم ،پیسہ ہضم‘۔

یہ بھی پڑھیے: کرشن چندر کا افسانہ اور ہجوم کی نفسیات

فہمیدہ ریاض جس زمانے میں کانفرنس میں شرکت کے لیے بنگلہ دیش گئیں وہاں یومِ آزادی منایا جارہا تھا اور وہاں محمد ارشاد کی حکومت تھی جس کی خبر قاری کو کتاب کے آغاز میں مل جاتی ہے جب وہ اپنی ٹی وی پر میزبان پروفیسر اور ان کے شوہر کے ساتھ صدر ارشاد کی والدہ کے انتقال کی خبر میں صدر اور ان کی اہلیہ کو غم سے نڈھال دیکھتے ہیں۔ پروفیسر اور ان کی میاں صدر ارشاد کے حامی نہیں لگتے، اس لیے یہ خبر ان کے لیے مذاق کی بات بن جاتی ہے اور وہ پاکستانی مہمان کی موجودگی کے احساس کے بغیر اس طرح کے فقرے کہہ جاتے ہیں:

’یہ اپنی ماں کی موت کو بھی سیاسی رنگ دے رہے ہیں، ہمدردی حاصل کرنے کے لیے‘۔

’اور مسز ارشاد کو تو دیکھو! کوئی عورت ساس کے لیے ایسے نہیں روتی دھوتی‘۔

’’ہاں یہاں تکنیکی غلطی ہو گئی‘۔

’ہم تینوں ہنستے ہیں‘۔

صاحبو! اس کتاب کے تعلق سے باتیں اور بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس تھوڑے لکھے کو جو اتنا بھی تھوڑا نہیں ہے  بہت جانیے اور آخر میں اس سرزمین سے فہمیدہ ریاض کے عشق کی وجہ جان لیں :

‘1971 میں، بنگال کی جو تصویر میرے دماغ میں تھی اس پر اچانک بہت سا خون گر پڑا تھا۔ یہ سرخا سرخ ہو گئی تھی؛ ایک خون میں بھیگی تصویر۔ پھر بھی تصویر تو وہی تھی۔ بنگال ۔۔۔ سو تو کسی سیاہ آنکھ کا خواب تھا؛ دراز، سیاہ گیسوؤں کی خوشبو، بھٹیالی کی پرسوز تان، جو ازل سے ابد تک بہتے پانی پر لہرا رہی تھی۔ بنگال۔۔۔ زین العابدین کے موقلم کے سرسراتے خطوط ،اور نذر الاسلام  اور ٹیگور کی شاعری۔ آپ بنگال سے کیونکر پیار نہ کریں گے؟ کیونکر اس پر عاشق نہ رہیں گے؟ ایک رومانی ،جذباتی، اردو کی شاعرہ ہونے کے ناتے بنگال سے بہت پیار کرتے رہنا میرے لیے ناگزیر تھا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp