لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا کو عہدے سے ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
ریفرنس اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شیراز زکا کی جانب سے دائر کیا گیا ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نجی کمپنی بنام وزارت پٹرولیم کا کیس گزشتہ 7 سال سے جسٹس شمس محمود مرزا کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس: 10 ججز کے خلاف شکا یتیں داخل دفتر، 6 ججوں کے خط پر بھی غور
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ہر سماعت پر جسٹس شمس محمود مرزا درخواست گزار کو جاری کردہ حکم امتنائی میں توسیع کردیتے ہیں، گزشتہ ڈیڑھ سال میں مذکورہ کیس 3 مرتبہ سماعت کے لیے مقرر ہوا۔
دائر ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ کیس کے لیے وفاق اور ایف آئی اے کی جانب سے بطور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوا، جسٹس شمس محمود مرزا گزشتہ 7 سال سے درخواست گزار (کمپنی) کو جان بوجھ کر نواز رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف بھی نیب ریفرنس بھیجا جاسکتا ہے، معاون خصوصی عرفان قادر
ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مذکورہ کیس 40.1 کروڑ روپے کی پیٹرولیم لیوی سے متعلق ہے، ایف ائی اے میں جاری انکوائری کے مطابق، حکومت پاکستان کو 40.1 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
دائر ریفرنس میں کہا گیا کہ بدقسمتی سے جسٹس شمس محمود مرزا کے حکم امتناعی کے باعث ایف ائی اے میں جاری انکوائری رک گئی، جسٹس شمس محمود مرزا کو نااہلیت ظاہر کرنے اور بددیانتی کے باعث کیس کا فیصلہ نہ کرنے پر ذمہ ٹہرایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس شمس محمود مرزا نے پہلے درخواست کو ’محفوظ فیصلے‘ کے لیے پاس رکھا بعد ازاں ملتوی کردیا، جسٹس شمس محمود مرزا نے کیس فائل کو 20 روز تک اپنے پاس رکھا اور بعد ازاں پھر سے ملتوی کر دیا، ریفرنس
ریفرنس میں بتایا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ایک جج کو نااہلیت دکھانے پر نکال باہر کیا جاسکتا ہے، اب وقت ہے کہ جسٹس شمس محمود مرزا جیسے نااہل اور بددیانت جج سے جان چھڑوا لی جائے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جسٹس شمس محمود مرزا صبح 9 بجے سے محض 10 بجے تک کیسز سنتے ہیں۔
ریفرنس میں استدعا کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شمس محمود مرزا کو عہدے سے ہٹایا جائے۔