صحافی وحید مراد کا 2روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، ایف آئی اے کے حوالے

بدھ 26 مارچ 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

13 گھنٹے سے لاپتہ صحافی وحید مراد کو اسلام آباد کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ عدالت نے وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔

صحافی وحید مراد کے خلاف مقدمہ کے خلاف ایف آئی آر کا عکس

پیشی کے موقع پر وحید مراد نے بتایا کہ ان کی ساس کینسر کی مریضہ ہیں، وہ کینیڈا سے علاج کرانے پاکستان آئیں۔ جو مجھے گھر اٹھانے  آئے تھے، میں نے انہیں کہا کہ اپنی شناخت کروائیں۔ وحید مراد نے بتایا کہ انہیں صرف بیس منٹ پہلے  FIA کے حوالے کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ صحافی وحید مراد کو ان کے اہلخانہ کے مطابق، منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع ان کے گھر سے کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے ’اغوا‘ کرلیا گیا تھا۔

وحید مراد کی اہلیہ شنزا نواز نے کینیڈا سے ’انڈپینڈنٹ اردو‘ سے گفتگو میں بتایا کہ رات 2 بجے کے قریب گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ متعدد نقاب پوش افراد آئے، دروازہ کھٹکھٹایا اور میرے شوہر کو کہنے لگے کہ آپ افغان ہیں، دروازہ کھولیں۔ اس دوران شور سے میری والدہ اٹھ گئیں۔

شنزا کے مطابق ان کی والدہ علاج کے لیے پاکستان آئی ہوئی ہیں اور ان کے گھر پر مقیم ہیں جبکہ وہ اپنے خاندان کے پاس کینیڈا میں ہیں۔ ان کی والدہ نے بتایا کہ نقاب پوش افراد نے کہا کہ دروازہ کھولیں، ورنہ دروازہ توڑ کر اندر آ جائیں گے۔ وحید مراد نے دروازے کے نیچے سے ہی شناختی کارڈ سرکا دیا اور کہا کہ وہ افغان نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: صحافی اسد طور نے دورانِ قید اپنا وقت کیسے گزارا؟

والدہ کے مطابق کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے دروازہ توڑا اور وحید کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ یہ لوگ پولیس کی گاڑی اور 2 ویگو ڈالوں میں آئے تھے۔ ان سے اور وحید سے بھی موبائل فون چھین لیا گیا، جس کے بعد انہیں باہر گاڑی میں بٹھایا اور لے کر چلے گئے جبکہ ان میں سے کچھ افراد واپس گھر آئے اور اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھا کر لے گئے۔

شنزہ نواز نے کہا کہ پولیس کچھ نہیں بتا رہی کہ کس نے ان کے شوہر کو اٹھایا ہے۔ انہیں پتا چلنا چاہیے کہ ان کا شوہر کس کے پاس ہے اور اسے کس قانون کے تحت کون اٹھا کرلے گیا ہے؟

مزید پڑھیں: ’پہلی بار عدالت آئی‘، اسد طور کی والدہ نے بیٹے کی گرفتاری پر کیا کہا؟

واضح رہے کہ وحید مراد اس سے قبل ’نیوز ون‘ اور روزنامہ ’اوصاف‘ کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھے۔ وہ ’پاکستان 24‘ کے نام سے اپنی ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی فعال ہیں۔

’انڈپینڈنٹ اردو‘ نے اسلام آباد پولیس کے ترجمان شریف اللہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ واقعہ ان کے نوٹس میں نہیں۔ چیک کرکے بتا سکتا ہوں، لیکن بعد ازاں انہوں نے دوسرے ترجمان کا رابطہ نمبر فراہم کردیا۔ تاہم دوسرے ترجمان تقی جواد سے بھی تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔

ادھر سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے ایکس پوسٹ پر بتایا کہ ایک دن پہلے صحافی احمد نورانی کے دو بھائیوں کے اغوا پر حبسِ بیجا کی پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کروانے ہائیکورٹ سیکریٹری ٹو چیف جسٹس کے پاس آئے تھے اور آج ایک اور صحافی وحید مراد کے اغوا پر آج ہی کی تاریخ میں درخواست مقرر کروانے اُسی جگہ موجود ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ آج کی درخواست پر عجیب اعتراض کیا گیا ہے، رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے کہ حبس بیجا کی درخواستوں کے لیے ماتحت عدلیہ کے پاس بھی جایا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp