وائرل کلچر اور ثقافتی زوال

پیر 7 اپریل 2025
author image

اے وسیم خٹک، صوابی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ چند برسوں سے لکی مروت اور ملحقہ علاقوں میں عید کے موقع پر نوجوانوں کی ایک نئی اور حیران کن روایت سامنے آ رہی ہے۔ مقامی طور پر چلنے والی کھلی پک اپ یا سوزوکی گاڑیوں میں نوجوان رنگین کپڑے پہنے، چادریں اوڑھے، پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے، سڑکوں پر ڈھول کی تھاپ پر ناچتے، تھرکتے اور مختلف قسم کی حرکات کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ مناظر موبائل فونز پر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام پر وائرل کیے جاتے ہیں۔ ان وڈیوز کو دیکھ کر کئی لوگ تفریح حاصل کرتے ہیں، بعض ہنستے ہیں، جب کہ کچھ شدید تنقید اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

ان ویڈیوز میں جو حرکات دیکھی جا رہی ہیں، وہ کسی بھی زاویے سے پشتون ثقافت یا تہذیب کا حصہ نہیں۔ جہاں موسیقی اور رقص کو پشتون معاشرے میں ایک مخصوص مقام حاصل ہے، جیسے ‘اتنڑ’ جو وقار، ترتیب اور ہم آہنگی کی علامت ہے، وہاں یہ کھلی سڑکوں پر پرفارم کیے جانے والے حرکات نہ تو فن کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی روایتی ثقافت کی۔ بلکہ یہ محض توجہ حاصل کرنے کی ایک دوڑ ہے، جس میں نوجوان اپنی شناخت اور مقبولیت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

کیا یہ صرف تفریح ہے یا خود کو منوانے کی خواہش کا اظہار؟ ماہرین عمرانیات کے مطابق یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ نوجوانوں کو اپنے جذبات اور توانائی کے اظہار کے لیے روایتی ذرائع اور پلیٹ فارمز دستیاب نہیں۔

سوشل میڈیا نے انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم دیا ہے جہاں وہ چند لمحوں میں ہزاروں، لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ایسے مناظر کی تیاری میں اپنی ساری توانائی صرف کر دیتے ہیں تاکہ وہ ‘وائرل’ ہو سکیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے الگورتھمز ایسے مواد کو زیادہ پروموٹ کرتے ہیں جو غیر معمولی، مزاحیہ یا چونکا دینے والا ہو۔ اس لیے نوجوان وہی کچھ کرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرے۔ اس کے پیچھے مالی فوائد، فالوورز کی تعداد بڑھانے اور سوشل میڈیا پر شناخت بنانے کی شدید خواہش بھی شامل ہے۔

لیکن کیا صرف نوجوان قصوروار ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے، معاشرتی ادارے اور کمیونٹیز نوجوانوں کو وہ ماحول دے رہی ہیں جہاں وہ مثبت طریقے سے خود کو ظاہر کر سکیں؟ کیا ہم نے نوجوانوں کے لیے کوئی ایسا فورم بنایا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ہمیں تنقید، طنز اور مذاق سے نکل کر سنجیدہ مکالمے کی طرف آنا ہوگا۔ نوجوانوں کو بہتر راہ دکھانے کے لیے ہمیں ان کے جذبات کو سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافت محفوظ رہے اور نوجوان اس پر فخر کریں تو ہمیں انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ اس ثقافت کا حصہ ہیں، اس کے امین ہیں، اور اس کی بہتری میں ان کا کردار کلیدی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہیں صرف ماضی کی روایات کا پابند بنانے کے بجائے، موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق رہنمائی دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی شناخت کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے ایک مثبت انداز میں پیش کر سکیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp